Sunday, 14 May 2017

Khat e Mustaqeem or Qosain A Beautiful Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi












خطِ مستقیم اور قوسین
پے در پے مقابلے کے چھ امتحانوں میں ناکام سعادت، ٹیلر ماسٹر کی دُکان پر کھڑا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اچھے کپڑوں کے ذریعے سے کمیشن کے ممبروں پر رعب ڈالنا ضروری ہے اور اسی لیے اس نے اپنا سوٹ باسط کے ہاں سلوایا تھا۔ اس نے دکان پر کھڑے ہو کر زولوٹاپ میں لکھے ہوئے بورڈ کی طرف دیکھا— ’’باسط لندن ڈپلومیڈکٹر…‘‘
دکان میں داخل ہوتے ہوئے اس نے دائیں اور بائیں جھانکا۔ اس کے دل کے کسی کونے میں خواہش تھی کہ اس کی جان پہچان والا کوئی شخص اُسے باسط کی دکان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ باسط کٹنگ کے لحاظ سے بڑا استاد تھا۔ کٹنگ کی انگریزی فرم کے علاوہ کوئی اس کا لگا نہ کھاتا تھا اور شہر کے سب درزی اس کے نام کا کلمہ پڑھتے تھے۔ لیکن اس وقت بازار میں دفتر جانے والوں کے سوا اور کوئی دکھائی نہ دیتا تھا اور وہ دفتر جانے والے، انٹرویو کی حد سے گزر چکے تھے۔ وہ اس وقت باسط یا ماجد کی دکان پر کیوں آتے؟
لیکن اب انٹرویو،سعادت کے لیے ایک عام چیز ہو چکے تھے، اگرچہ اچھے سوٹ کا خیال اس بات کو جھٹلاتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک اور صرف ایک بار وہ اچھی ’’فال‘‘ پتلون اور گردن پر جم کر آنے والے کوٹ پہن کر کمیشن کے سامنے چلا جائے۔ اس کے بعد چاہے وہ لیا جائے یا نہ لیا جائے، اس میں اس کا کوئی قصور نہ ہو گا۔ وہ اپنے سر سے ایک خوبصورتی کے ساتھ ایک الزام ہٹانا چاہتا تھا… دکان پر جاتے ہوئے اس نے باسط کی طرف دیکھا، جس کے چہرے پر تموّل کے آثار نظر آتے تھے۔ سعادت کو دیکھتے ہی باسط ایک لمحہ کے لیے ٹھٹکا۔
’’اوہ  — آئیے — آ … پ ر ک کیوں گئے؟‘‘
’’یوں ہی‘‘سعادت نے لاپروائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کہیے میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘
’’جی ہاں — اتنے تنگ وقت کے باوجود …‘‘
’’تو لائیے دیجیے … مجھے کہیں پہنچنا ہے۔‘‘
ماسٹر باسط نے معذرت کے انداز میں کہا ’’صرف بٹن ٹانکنے باقی ہیں آغا صاحب۔‘‘
’’اوہو‘‘ سعادت نے بیزار ہوتے ہوئے کہا — ’’درزیوں کی یہ عادت نہ گئی — کہ بس صاحب ایک سیکنڈ کا کام ہے۔ بس آدھے سیکنڈ کا، اور وہ سیکنڈ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جاتا ہے۔ درزی خواہ لندن سے کام سیکھ آئے یا ٹورنٹو سے، یہ آدھ سکینڈ …‘‘
باسط نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’گستاخی معاف آغا صاحب، آپ جانتے ہیں کہ سوٹ کا کپڑا ہمیں وقت پر دیا تھا — لیکن استر کے لیے اٹیلین آپ دو دن کے بعد دینے آئے تھے اور وہ بھی دو اڑھائی بجے کے قریب ۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ تیسرا دن بھی آپ کے ذمہ پڑا …‘‘
’’اچھا، اچھا ‘‘… سعادت نے خاموش ہوتے ہوئے کہا ’’اب آپ باتوں میں زیادہ وقت نہ لگائیے … اور کاریگر کو کہیے کہ وہ بٹن جلد ٹانک دے۔‘‘
باسط نے ایک کی جگہ دو کاریگروں کو سعادت کا سوٹ دے دیا اور کہا ’’صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔ یہ کام پلک جھپکتے میں تیار ہو جائے‘‘ اور اس کے بعد ماسٹر باسط نے بڑے احترام سے آغا سعادت کو دکان کے اندر بٹھا دیا۔ خدا جانے اس جگہ پر بٹھانے کے لیے باسط کی طرف سے اہتمام ہوا تھا یا نہیں، لیکن یہ بات درست تھی کہ وہاں سے دُکان کا کونہ کونہ نظر آتا تھا۔ اور تمام وہ تصویریں جن میں اچھے سے اچھے سوٹوں میں ملبوس اکثر نوجوان انگریز کسی خوبصورت بلانڈ یا برونیٹ کے ساتھ ہوا خوری کے لیے جا رہے تھے، نظر آ رہی تھیں۔سامنے چار خانے کی ہٹنگ کوٹ میں گھوڑے پر، یا پلس فور میں گولف کی چھڑی کو کندھوں سے اوپر اٹھائے کوئی صاحب دکھائی دیتے تھے۔ ایک بڑی سی تصویر میں کارنروں کی ڈائنا اپنے کتّے کو تھامے کھڑی نظر آتی تھی، اور اس کا گون ہوا میں اڑا جا رہا تھا۔ ڈائنا کا جسم لباس میں ہونے کے باوجود لباس سے علاحدہ نظر آتا تھا۔ اس کی پوشاک میں بہ ظاہر درزی کی قدرت سے زیادہ خدا کی قدرت نظر آتی تھی۔ لیکن چونکہ ہر فن کار کا مقصد خالق کی قدرت کو سامنے کرنا اور آپ خالق کے انداز میں چھپ جانا ہے، اس لیے کسی ہوشیار کاریگر نے احتیاط کے ساتھ ایک بے احتیاطی سی پیدا کر دی تھی، ورنہ اگر وہ تصویر صرف خدا کی ہوتی تو باسط — لندن ڈپلومیڈکٹر… کی بجائے شہر کے کسی ک لال خانے میں ہوتی۔
اور یہ ڈائنا کی تصویر پر ہی موقوف نہیں تھا، جہاں سعادت بیٹھا تھا وہاں سے شیشوں کے اندر قد آدم مجسمے نظر آتے تھے، جو اتنے سرخ سپید اور چپ تھے کہ ان سے ڈر لگتا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ چپ تھے، اگرچہ بولتے تھے، تمام کے تمام مختلف شیڈ کی لیڈی ہملٹین پہنے اپنے سراپا کو دیکھ رہے تھے اور ان کے قریب ان بے آوازوں کی آواز، ماسٹر باسط فیتے کو بے پروائی سے گلے میں ڈالے، ڈائنا اور لیڈی ہملیٹن سے بے خبر اپنا حساب کتاب کر رہا تھا۔
ابھی دن شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ بل بھی وصول ہونے لگے۔ دو تین آدمی تو اس خاموشی کے ساتھ ہاتھ میں پیسے تھما گئے کہ وہاں چور بازار ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ اگرچہ وہاں ایسا بازار ہونے کی گنجائش نہ تھی، صرف سینے سلانے کا کام تھا۔ شاید اچھی دکان کی نشانی یہی تھی کہ اس کے چور بازار ہونے کا پتہ چلے۔ سعادت کے دیکھتے دیکھتے ماسٹر باسط نے دو اڑھائی سو روپے اپنے رومال ٹاپ کی میز کے ایک ڈبے میں رکھ دیے، اور ٹاپ کو کھینچ کر میز کی سطح کے برابر کر دیا۔ چابی بدستور گچھے میں تالے کے اندر لٹکی رہی۔ ان رپوں میں ساٹھ روپوں کا سعادت خود اضافہ کرنے والا تھا۔
سعادت جھلاّ گیا۔ آخر اس نے گناہ کیا کیا ہے جو اسے روپئے نہیں ملتے، وہ انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتا۔ سوچتے سوچتے وہ صرف یہی سوچ سکا— آخر ماسٹر مجھے ممنون کرنے کے لیے میرا سوٹ جلدی نہیں تیار کرسکتا تھا؟ وہ ایک کاریگر کو زیادہ عرصہ بٹھا لیتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ اسے چار چھ آنے اوور ٹائم کے دینے پڑتے لیکن چیز تو مجھے وعدہ پر مل جاتی۔ شاید باسط — لندن ڈپلو میڈ — ہونے کی وجہ سے کاریگروں کو وقت پر بلاتا اور وقت پر چھٹی دیتا ہے۔ لیکن لندن سے ڈپلوما اس نے کپڑا کاٹنے کا حاصل کیا ہے۔ وقت کا ڈپلوما تو اپنا ہی ہے اور اسے کاریگروں کی نسبت اپنے گاہکوں کو زیادہ خوش رکھنا چاہیے۔ حالاں کہ کام کرنے والوں کے اوقات، سرکاری طور پر تصدیق ہونے کے بعد ڈائنا کی تصویر کے نیچے لٹکے ہوئے تھے، تاہم اس وقت سعادت شاپ اسسٹنٹس ایکٹ کی بابت غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
’’پیسے کو میری زندگی میں دخل ہی نہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے‘‘ سعادت نے پھر سوچا اور اب وہ باسط کی دکان سے باہر اس منی سیاہ سڑک پر دیکھنے لگا،جو سیدھی کمیشن کے دفتر تک چلی گئی تھی، جیسے کسی نے پیمانہ رکھ کر اس دکان اور دفتر کے درمیان پون ایک میل لمبا سیدھا خط لگا دیا ہو۔ سعادت نے غنودگی کی سی حالت میں پہلے اپنے سوٹ اور پھر اس سیدھی سڑک کی طرف دیکھا، گویا وہ اتنے اچھے کپڑے پہن کر اس سیدھی سڑک پر چلتا ہوا گیارہ بجے کمیشن کے دفتر میں پہنچ جائے گا، اور ہر مہینے چپکے سے اڑھائی سو روپئے جیب میں ڈال لیا کرے گا۔
پھر سعادت کی خود ہی ’’چپکے سے‘‘ کے الفاظ پر اعتراض ہوا۔ شاید اس لیے کہ رول ٹاپ پھر اٹھایا گیا تھا اور ایک خانہ میں مزید روپئے ڈالے گئے تھے اور باسط مسکرا رہا تھا اور سعادت بوکھلا رہا تھا۔ سوٹ قریب قریب تیار تھا … سعادت نے اپنی سبز فلیٹ کو ماتھے پر سرکایا اور باسط کی جنونی ہاتھوں کو نوٹ گنتے ہوئے دیکھا —— سعادت نے سوچا —— ’’اگر میں ٹیلر ماسٹر ہوتا—‘‘
’’کھنڈے‘‘ ماسٹر باسط نے اپنے ایک شاگرد کو پکارا۔
ایک شاگرد سامنے آیا جس کا ہونٹ کٹا ہوا تھا۔ وہ بہت دُبلا پتلا اور نحیف و نزار تھا۔ اس نے گلو بند کے گرے ہوئے پلّے کو گلے میں ڈالا اور کٹے ہوئے ہونٹ کے احساس کی وجہ سے نیچے کا ہونٹ اوپر کے ہونٹ کے ساتھ بھینچنے لگا۔ اس نے گلو بند میں تھوڑا سا منھ چھپایا اور بولا۔ ’’جی! بس تیار ہے۔ اور کھنڈے کے کانوں میں طلائی بیربلیاں تھیں۔ وہ مسلمان تھا، لیکن وہ سونے کی ہندوانہ بیربلیاں، اس کے کانوں میں ایک ایسے سوال کی صورت لٹک رہی تھیں، جس کا جواب ہندو اور مسلمان لیڈر دینے کے ناقابل تھے۔ ’’شام کے صاحب ‘‘ کی طرح اپنے منھ سے نکلتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے کھنڈا بولا — ’’صبح سے انگلیاں سیدھی نہیں ہوئیں‘‘ اور اس نے انگلیوں کو دبایا اور بولا ’’پھر بھی آغا صاحب کو ساڑھے دس بجے تک سوٹ پہنا دوں گا …‘‘
سعادت نے خوشنودی کے اظہار میں سر ہلایا۔
ماسٹر باسط نے رول ٹاپ کے قریب ایک صاف سطح پر فلالین ڈالی ہوئی تھی ۔ اس نے فلالین پر ایک سفید خط ڈالتے ہوئے کہا ’’ہاں بس مجھے یہی کہنا تھا۔‘‘
سعادت اپنی جگہ اور اس کے ماحول کی منظم سازش سے نکلا۔ آخر اسے اور سوٹ تو سلوانا ہی نہیں تھا، اس لیے وہ وہاں سے اُٹھ کر دکان سے باہر چوبی تختے پر ٹہلنے لگا اور بازار، اور باہر کی غیر منظم چیزوں کو دیکھنے لگا، بے ربط شور سننے لگا۔ دفتر جانے والوں کے ساتھ اب اسکول کی چھوکریاں بھی نکل آئی تھیں اور اپنے سبک پانو پر پھسلتی ہوئی کمیشن کے مخالف سمت چلنے لگیں۔ کہیں کہیں ایک دو جوڑے شاپنگ کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ چمڑے اور آئل کلاتھ کی دکان کا نوکر اور ایک کیمسٹ اپنی اپنی دکان کے بورڈ صاف کر رہے تھے۔
باسط کے ہاں دو اور نوجوان داخل ہوئے۔ ایک کا سوٹ سِل چکا تھا اور دوسرا چسٹر کے لیے کپڑا لایا تھا۔ دکان کے اندر ایک درجن مشینوں کی آواز کے ساتھ باسط کہتا ہوا سنائی دیا— دوڑ چودہ  —کمر بتیس—چھاتی پونے چھتیس! لیکن یہ چیز بھی سعادت کو متوجہ کرنے کے لیے کافی نہ تھی۔ وہ جمائی لے کر بازار کا غیر منظم اور بے ربط ماحول دیکھنے لگا۔ آخر پھر اسے وہ ربط پسند آیا اور دکان کے اندر جا کر ڈائنا کے بجائے اس کے کتّے کی طرف دیکھنے لگا۔ آخر انگریزی تہذیب کے مطابق بات کتے سے شروع ہوتی ہے اور پھر ڈائنا یا ایڈنا تک پہنچتی ہے—!
انگریزی کا مقولہ ہے — ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتّے سے محبت کرو‘‘ اور کتا لیلیٰ کے کے کتّے سے سراسر مختلف ہے۔ کیونکہ ایک وقت میں لیلیٰ کا کتا ہوتا ہے یا لیلیٰ، دونوں ایک ساتھ نہیں ہوتے۔ سعادت نے پھر سوچا کہ تصویر اس دکان میں کس قدر موزوں ہے۔ لباس کی طرف اتنی توجہ آخر مغربی چیز ہے۔ ہمارے ہاں تو محبت کی خاطر محبت سکھائی جاتی ہے۔ بیوی سے کہو، تم اچھے کپڑے پہنو تو وہ کہتی ہے’ ’میں جانتی ہوں — آپ کو مجھ سے محبت تھوڑی ہے۔ محبت میرے کپڑوں سے ہے‘‘ انھوں نے مغربی فیشنوں کی تقلید سیکھ لی ہے۔ لیکن مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ کا حسین مقولہ نہیں سیکھا۔
اب تک سعادت باسط کا اور بھی قائل ہو چکا تھا ۔ لیکن
اس وقت دو لڑکیاں جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہوئی تھیں، ایک چھوٹے سے کیس میں شیشے کے سامنے اپنا سراپا دیکھنے لگیں۔ ایک نے کوٹ سلوایا تھا اور دوسری نے شلوار اور قمیص۔ یہ بُت بولتے بھی تھے۔ ان کی وجہ سے کمرے میں ایک خوشگوار سی گرمی پھیل گئی تھی اور وہ سردی اور بے رونقی جو اس سے پہلے وہاں مسلط ہو چکی تھی، دور ہو گئی تھی۔ کھنڈے کا ہاتھ سیدھا ہو گیا تھا اور دوسرے نوجوان کی پتلون کی کریز بہت حد تک درست ہو گئی تھی — اور سعادت کو وہ نوجوان بلانڈ اور برونیٹ کے ساتھ ہوا خوری کر رہے تھے، حرکت کرتے ہوئے نظر آنے لگے۔
اور کیبن کی تصویروں میں کتا بہت پیارا معلوم ہو رہا تھا — کتا — کوٹ، کیونکہ اس سیٹنگ میں مغربی رواج کے مطابق لیلیٰ اور سگِ لیلیٰ۔ ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ کے انداز میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ معلوم ہوتا تھاکارنروان کی ڈائنا اس تصویر سے اتر کر کیبن میں چلی آئی ہے اور باسط کا رول ٹاپ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھ رہا ہے۔
’’یہ پھُندنا سا کیا لگا دیا ہے، سوداں۔‘‘
دوسری لڑکی جواب دیتی ہوئی دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ پہلی لڑکی جس کی پیٹھ سعادت کی طرف تھی کا منھ آئینہ میں نظر آنے لگا اور سعادت ایک جذب کے ساتھ بیٹھا رہا۔ دوسری لڑکی بولی۔
’’ارے رواج ہے —— پیٹھ پر بھی پھول سا اُبھار دیتے ہیں اور سینے پر بھی …‘‘
’’مجھے تو تمھارا کپڑا بہت پسند ہے۔
’’نرا ٹاٹ معلوم ہوتا ہے — سلا اچھا ہے۔ باسط جو ہوا … ‘‘
دونوں ایک دوسرے کے کپڑے اور سلائی کو بہتر سمجھتی تھیں۔ لڑکی، جس کا نام سوداں — مسعودہ بیگم تھا،اس نے اپنے بال کوئن کرسٹائنا کی طرح بنائے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا چہرہ لمبا کم تھا اور چوڑا زیادہ تھا اور یوں توازن قائم رہتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے قدرتی بلوّر میں سرمے کی ہلکی سی تحریر دکھائی دیتی تھے —— وہی ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ انداز کی —دوسری لڑکی رمز کی طرح کم گو اور تیکھی تھی۔ ٹھوڑی اور منھ کے درمیان ایک پھوڑے کا ہلکا سا داغ تھا۔ لیکن اتنا ہی جتنا زیادہ نہیں ہوتا اور ایک خوبصورت، امتناعی حکم والے چہرے سے کم ہوتا ہے۔ اس کا نام سلطان تھا۔ بہتی ہوئی لکیروں والا کوٹ اس کے جسم کے ابھار پر اُبھرتا اور دباؤ پر دبتا پنڈلیوں کے وسط تک چلا آیا تھا۔ چھاتی پر خوبصورت قوسین بن رہی تھیں۔ سعادت قوسوں کے لیے ذکی الحس واقع ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ سے بے خبر،چھاتی اور کمر کی قوسوں کی طرف دیکھنے لگا۔
سعادت سلطان اور سوداں کو دیکھتا رہا، حتیٰ کہ ان لڑکیوں کو اپنی بے پردگی کا احساس ہونے لگا۔ سلطان نے بڑھ کر ہاتھ مارا، اور پلائی ووڈ کے کمرے کا پردہ پیتل کے چھلوں کو پورے پھیلاؤ میں لے کر تن گیا۔ صرف ایک معمولی سی درز باقی رہ گئی۔
اس وقت کھنڈا سعادت کا سوٹ لے کر آیا اور ایک علاحدہ کیبنٹ میں لے جا کر پہنانے لگا۔ سعادت نے فیلٹ کو سیدھا کیا تاکہ وہ ایک شریف انسان نظر آئے اور اس نے جلدی جلدی نیا سوٹ پہنا۔ سوٹ بالکل درست تھا۔ لیکن سعادت نے اس بات کا اعتراض ضروری نہ سمجھا۔ کاروباری طور پر یہ بات درست نہ تھی۔ ’’بغلوں کے قریب دبتا ہے‘‘— اس نے کھنڈے کو دکھاتے ہوئے کہا ’’اور یہ دیکھو — فال سیدھی نہیں پڑتی … لیکن … لیکن… مجھے جلدی ہے…‘‘
کھنڈے نے گھٹنوں کے قریب سے قینچی سرکائی۔ انگشتانہ اُتارا اور سوٹ کی جیبوں سے تمام کچے دھاگے نکال دیے۔ اُس وقت لڑکیوں نے کھنڈے کو اشارے سے بلایا۔ کھنڈا معذرت کیے بغیر ادھر چلا گیا — لیکن سعادت نے احتجاج نہ کیا۔ کھنڈے کی وجہ سے سعادت اور ان لڑکیوں میں ایک رابطہ پیدا ہو گیا تھا۔ سعادت کے پاس سے ان لڑکیوں کے کیبن تک جانے میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ان دو جگہوں کے درمیان ایک غیر مرئی خط لگ گیا ہے …… اور یہی خط ہیں، جو راستہ کاٹتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
لڑکیوں کے کیبن میں بے احتیاطی سے داخل ہونے پر پردہ سر گیا۔اب سلطان کی پیٹھ سعادت کی طرف تھی۔ وہ پنجابی قمیص پہنے ہوئے تھی اور کمر کے نیچے قوسین بڑی بڑی اور کچھ خوفناک تھیں۔ ان لڑکیوں نے پردے کو اُٹھا رہنے دیا۔ شاید ان کی بے احتیاطی تھی۔ وہ سیدھا تکنا نہ چاہتی تھیں۔ اسی قدر بے حجابی کے ساتھ جیسے سعادت دیکھ رہا تھا۔ لیکن سعادت کیا کرسکتا تھا۔ مرد کا انداز ہی کچھ سیدھا سیدھا، اجڈ اجڈ ہوتا ہے۔ لیکن عورت نگاہیں جھپکا کر ڈالتی ہے۔ جیسے اس کا جسم حسین قوسین کا مجموعہ ہے، ویسے ہی اس کی نگاہیں اور اس کے افعال
سعادت کے جسم میں خون حرکت کرنے لگا۔ اسے اپنے کانوں کے کنارے جلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ کھنڈے نے لڑکیوں کے کیبن میں داخل ہوتے ہی سلطان کا کوٹ کھینچا اور پھر اپنے آپ ایک بازو کی دوری پر جا کھڑا ہوا— ’’یہ کالر کیسے ہے، ذرا ٹھیک کر دو‘‘—سلطان بولا۔ کھنڈے نے ہاتھ بڑھا کر کالر ٹھیک کر دیا۔ اور پھر باہر نکلتے ہوئے بولا— ’’بس بی بی جی — آپ کو کوٹ ایسا پسند آئے گا — جیسے … کبھی پسند نہیں آیا‘‘ کھنڈا رُک گیا اور بڑے زور سے دونوں ہونٹ بھینچنے لگا۔ اس وقت لڑکیاں ہنس رہی تھیں۔
یہ سازش تھی سب سازش تھی — سعادت نے کہہ دیا، صاف کہہ دیا ۔ لیکن وہ کوٹ اُتار کر خود کچے دھاگے اتارنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ ابھی تک اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ مسعودہ نے بھی کوٹ اُتار دیا تھا ۔وہ کہہ رہی تھی  ’’باسط صاحب۔‘‘
باسط نے حساب کتاب کا رجسٹروہیں پھینکا اور کیبن کی طرف آیا۔ ایک لڑکی نے کپڑے کے ایک پلندے کو اٹھاتے ہوئے کہا ’’ہمیں اور بھی کپڑے سلوانا ہیں— لیکن ایک شرط پر آج دوسرے ہفتہ کے روز مل جائیں۔ مسعودہ بیگم کی شادی ہے … مسعودہ شرما گئی اور کہنے لگی۔ ’’یوں کپڑے مانگ لیتی ایک خاص تاریخ کو —— میری شادی کا ذکر بھی کیا اتنا ضروری ہے کہ دنیا بھر——‘‘
’’چلو ہٹو — ہٹو—‘‘ سلطان نے کہا۔
باسط نے مسکرائے بغیر کہا ’’شنیل ہے— شنیل کَے گز لائیں کپڑا آپ؟‘‘
’’ایک گز عرض ہے— اور ساڑھے چھ گز ہے۔‘‘
باسط اور کھنڈا دونوں کھڑے تھے۔ کھنڈے نے ایک نظر سے سوداں کے تندرست جسم کی طرف دیکھا، گویا کہہ رہا ہو… ’’پونے سات گز ہو جاتا تواچھا تھا‘‘ لیکن وہ کچھ نہ بولا، شاید کھینچ کھانچ کر گزارا ہو جائے گا۔ مسعودہ کا چہرہ ابھی تک گلابی ہو رہا تھا۔ باسط نے آگے بڑھتے ہوئے سلطان سے کہا ’’آپ کی قمیص شلوار کا ماپ تو ہے —مگر ان کا ……
مسعودہ نے کہا — ’’تو ماپ لیجیے۔‘‘
باسط نے کچھ دور جا کر اپنے رول ٹاپ کی چابی گھمائی، اور اسے گچھے سمیت اُچھالتے اُچھالتے ادھر چلا آیا، کمرے کے پاس پہنچتے ہی ماسٹر باسط نے گلے سے فیتہ نکالا اور بولا۔
’’آپ ذرا ہاتھ اُٹھا دیں۔‘‘
مسعودہ بیگم نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے اور سعادت کے گلے میں لعاب خشک ہو گیا۔ مسعودہ سامنے کھڑی تھی۔ ایک خوبصورت عورت — اپنی تمام قوسِ قزح کے ساتھ۔ لیکن ماسٹر نے مسعودہ بیگم کے پیچھے سے فیتہ نکالا اور اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں دے دیا اور سامنے لاتے ہوئے بولا ’’کھنڈے لکھ لے۔‘‘
’’چھاتی اڑتیس۔‘‘
پھر کمر تیتس …… کراس بیک پندرہ، بازو بارہ، کلائی ساڑھے چار اور قمیص کی لمبائی کیا رکھوائیں گی آپ؟— گز سے اوپر؟— رواج نہیں — خیر پسند اپنی اپنی، شنیل اچھی ہے، اچھا انتخاب ہے ہپ؟ لیکن اس کے ماپ کی کیا ضرورت ہے؟ اور شلوار— یہ فیتہ رکھیے، ہاں ہاں رکھیے — اور فیتے کو مسعودہ بیگم کے گلابی پانو پر چھوڑتے ہوئے باسط اُٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اس نے فیتے کو گلے میں ڈالا اور چلتا بنا۔
’’عجیب ہونق ہے! ’’سعادت نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے سوچا‘‘ کتنا جذبات سے کورا— غیر شاعرانہ انسان ہے۔ اتنا بھی نہیں کہ ان خوبصورت قوسوں، ان گولائیوں کو دیکھ لے…‘‘
اور سعادت مبہوت کھڑا سلطان اور مسعودہ کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کہنیاں مارتی ہوئی چل دیں۔ سعادت کو کچھ یاد آیا اور اس نے ماسٹر باسط کے رول ٹاپ پر ساٹھ روپئے رکھے اور گھبرا کر باہر نکلا —— انگلش واچ کمپنی کا کلاک پونے بارہ بجا رہا تھا—— اور انٹرویو کا وقت گزر چکا تھا۔

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)