Sunday, 14 May 2017

Gali A Famous Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi, afsano














گالی
راجندر سنگھ بیدی 
چٹھی رساں کچھ نئے تھے اور کچھ پُرانے— لیکن ان سب لوگوں کا بلا لحاظ مذہب و ملّت ایک قبیلہ سا بن چکا تھا۔ان میں رحمت نور اور پرتاپ سنگھ کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔
’’63 الف نہیں آیا؟‘‘ پرتاپ سنگھ نے دن بھر کے کام کے بعد اپنی ’’واپسی‘‘ میز پر بکھیرتے ہوئے کہا۔
خواجہ — کلرک نے نفی میں سر ہلا دیا اور آنکھ کے ایک گوشے سے پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ خواجہ جانتا تھا کہ تریسٹھ الف یعنی رحمت نور اور پرتاپ سنگھ میں جب تک جوتی پیزار نہ ہولے، کسی کو کام کا مزا ہی نہیں آئے گا۔
’’کھا جا — ‘‘ پرتاپ سنگھ نے خواجہ میں رحمت نور کا ایک مہنگا بدل تلاش کرتے ہوئے پکارا۔ خواجہ کو معلوم تھا کہ پرتاپ سنگھ نے جان بوجھ کر اس کے نام کو بگاڑا ہے۔ اس نے ایک بڑی ہوشیار نگاہ سے پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھا اور بولا
’’کیوں بڑی خارش ہو رہی ہے سردار؟‘‘
اچانک پنگ پانگ کی سی بڑی میز کے دوسری طرف رحمت نور اپنی شکاری جالی اور غیرتقسیم شدہ پارسل رکھتا ہوا دکھائی دیا۔ گرمی کی شدّت سے اس کی بُری حالت تھی۔ پسینہ کولھوں کے فراز سے نشیب میں گرتا ہوا خاکی پتلون کے بیچوں بیچ پنڈلیوں پر قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ اس کے جہلمی تراش کے بال پگڑی کی لپیٹ میں سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ پرتاپ سنگھ نے ’’کھاجا‘‘ سے ٹکّر لینی مناسب بھی نہ سمجھی اور فوراً تریسٹھ الف کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا
’’ابے رحمت نور — دیکھ تیری عقل کے بخیے اُدھڑ رہے ہیں۔‘‘
رحمت نور نے اپنی ذات اور اپنے اردگرد سے باخبر ہوتے ہوئے اپنے بال پگڑی میں دبانے شروع کیے۔ بکھرے ہوئے بالوں کے متعلق عقل کے بخیے کا کنایہ غالباً پرتاپ سنگھ نے— خدا گنجے کو ناخن نہ دے، اگر دے گا تو عقل کے بخیے ادھیڑ دے—  کی ضرب المثل سے لیا تھا۔ اس میں رمز یہ بھی تھی کہ رحمت نور چندیا سے چٹیل تھا اور یہی اس کی دُکھتی رگ تھی۔
پرتاپ سنگھ نے اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے کہا ’’اڑھائی بال ہیں سالے کے، اور وہ بھی تو سنبھالے نہیں جاتے‘‘ اور یہ سب کچھ اس طور پر کہا کہ کوئی سُنے یا نہ سُنے، لیکن حق حقدار کو پہنچ جائے۔ ’’کھاجا‘‘ سُن کر مسکرایا تو پرتاپ سنگھ کو اس مسکراہٹ میں تائید اور شہ دکھائی دی۔ پھر پرتاپ سنگھ اپنے لمبے کیسوں (بالوں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
’’دیکھو واہگورو نے اُدھر کتنی عقل دی ہے، مگر کیا مجال کہ بخیہ اُدھڑا ہوا نظر آئے۔‘‘
خواجہ نے دل ہی دل میں اس خوش مذاقی پر داد دی اور کہا ’’تم نے اپنی عقل کے ناخن اُتروا لیے ہیں، لیکن تریسٹھ الف نے نہیں۔‘‘
رحمت نور نے میدان ہاتھ سے جاتے دیکھا تو بولا
’’خواجہ جی—  سُنا ہے اب سکھوں کے بارہ نہیں بجیں گے؟‘‘
ان دنوں حکومت نے جنگی مصلحت کی بنا پر اسٹینڈرڈ ٹائم میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کیا تھا اور رحمت نور کا اسی بات کی طرف اشارہ تھا۔ پرتاپ سنگھ نے یہ حربہ اپنے اوپر لے کر اس کی وقعت کو کم کر دیا۔ اپنے آپ پر ہنسنا ایک بہت بڑا فن ہے۔ پرتاپ سنگھ بولا۔
’’بلکہ ایک دن میں دو دفعہ بجا کریں گے۔ ایک دفعہ جب کہ بارہ بجا کرتے تھے اور دوسری بار جب کہ ایک بجے بجا کریں گے۔‘‘
اب تک سب پرتاپ سنگھ اور رحمت نور کی ان باتوں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ اُن کو دیکھ کر ہیڈ کلرک کے نائب صاحب بھی تشریف لے آئے۔ آپ اُن معدودے چند آدمیوں میں سے تھے جو اندر سے شریف ہوں، لیکن یوں بدمعاش نظر آئیں۔ بڑی بڑی سیندھیا مونچھیں، گھنے ابرو، ناک بھدی اور پچکی ہوئی۔ آپ نے آتے ہوئے اپنی اہمیت جتائی۔ ادھر اُدھر دیکھ کر         ضبط و احتساب کا سماں پیدا کرتے ہوئے بولے— ’’ہیڈ کلرک صاحب بہت خفا ہو رہے ہیں۔ شور نہ مچائیے‘‘— اور پھر اُن کے شور میں شریک ہو گئے خود بھی۔طبیعت شاہانہ پائی تھی بلکہ اکبرانہ۔ کیونکہ اس دن باگھ اور ہوائی میں لڑائی اٹھتی دیکھ کر آپ کے کئی جذبات کو آسودگی ہوتی تھی۔ ہیڈ کلرک صاحب تو اپنی سیٹ سے ہلتے ہی نہیں تھے۔ انھیں ہمیشہ مثال قائم کرنے کی پڑی رہتی تھی۔ تقلید کی عیاشی کا حظ نہیں اُٹھایا تھا۔ نئے نئے ڈویژن سے بدل کر آئے تھے۔ نہایت شریف، دُبلے پتلے، حسناتِ متبرکہ کے حامل۔ دفتر میں دو منٹ کی بھی فرصت ہوتی تو آنکھیں بند کر کے اپنے اللہ کو یاد کرنے لگتے۔ مثنوی مولانا روم اور تذکرۃ الاولیاء سے تعلیم شروع ہو کر انہی دو کتابوں پر ختم ہو جاتی تھی۔ خشوع و خضوع کے بڑے قائل تھے۔ ذرا جذبات کو کسی نے چھیڑا تو آنسو ہیں کہ بہے چلے جا رہے ہیں۔ خیر آپ وہیں بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے۔ جب پرتاپ سنگھ نے رحمت نور کا حربہ اپنے اوپر لے لیا،تو رحمت نور نے منی آرڈروں کی رسیدیں اکٹھی کیں اور کانوں کو چھوتے ہوئے بولا
’’چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی۔‘‘
پرتاپ سنگھ تلملایا۔ فارسی اس کے باپ دادا کو نہیں آتی تھی اور رحمت نور منشی آدھی آدھی بات پر گلستاں کے حوالے دے۔ اس نے نہایت بے بسی کے عالم میں چاروں طرف دیکھا، گویا کہہ رہا ہے، یہ ظلم ہے، سراسر ظلم ہے۔ پنجابی بولے پنجابی میں جواب لے، ذرا میدان میں آئے۔ پرتاپ سنگھ ہر غیرملکی زبان کو کالا علم کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ سٹپٹاتے ہوئے بولا ’’یہ کیا کالا علم ہے خواجہ صاحب؟‘‘ اور اب کے خواجہ صاحب کا نام بڑے ادب اور تپاک سے لیا گیا۔ خ علاحدہ اور واؤ معدولہ ۔ اور پرتاپ سنگھ بالکل اس طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی مدد کے لیے اپنی وحشت ناک اور پھٹی پھٹی نگاہیں اِدھر اُدھر چاروں طرف ڈالتا ہے۔ خواجہ اور نائب ہیڈ کلرک، جسے ڈاکخانہ کی اصطلاح میں تحصیلدار کہتے تھے، بولے — رحمت نور کہہ رہا ہے— ’’اگر کفر کعبہ سے ہی پیدا ہونے لگے، تو مسلمانی کدھر جائے گی— ؟‘‘
پرتاپ سنگھ نے بدلہ چکاتے ہوئے کہا ’’تو مسلمانی میرے پاس چلی آئے گی۔ اِدھر واہگورو کا دیا بہت کچھ ہے‘‘— اس پر سب خاموش ہو گئے۔
رحمت نور اور پرتاپ سنگھ، کرپا اور عنایت مسیح، یہ سب لوگ ہنستے کھیلتے، چیختے چلاّتے ایک سانس میں دعائے خیر اور دوسرے میں فحش گالی بکتے اپنا اپنا کام کیے جاتے۔ ان کا سینگ فرا، ان کا کورس ایک قومی ترانہ کی طرح پُر جوش اور جمود شکن ہوتا۔ ان کی گالی ہمیشہ مختصر ہوتی،لیکن دعاؤں کے دفتروں سے زیادہ بلیغ اور پھر زود اثر— !
ان چٹھی رسانوں میں سے کچھ شہر کے بسنے والے تھے۔ لیکن اکثر دیہات میں سے آئے تھے۔ سب کے سب سیدھے سادے تھے، اور بڑے احتیاط سے نا تراشیدہ،مگر ان کی تہذیب چیونٹی اور شہد کی مکھی سے بھی زیادہ پُرانی تھی۔ جس فنی مہارت اور پُرکاری سے یہ الفاظ کے گھروندے بناتے، اس کے لیے اب زیادہ تراش خراش کی ضرورت بھی تو نہ رہی تھی۔ یہ بنا جانے بوجھے گالی کے لطیف فن سے واقف تھے اور صدیوں سے اس ادارے کی اہمیت سے آشنا اور اس بڑی سچائی تک پہنچنے کے لیے کہ گالی بعض دفعہ اپنے اظہارِ خیال کا مختصر، جامع اور واحد طریقہ ہے۔ سوچنے کے لیے نہ کسی درمیانی عمل کی ضرورت تھی، نہ تجزیہ اور جواز کی۔
ڈاک خانہ کی جوت کے یہ دو سو بیل اسی طرح ہنس کھیل کر اپنے دبے ہوئے جذبات کو فحاشی سے آسودہ کر کے جب ایک ساتھ اور ایک سمت زور لگاتے تو ڈاک خانے کا یہ چھکڑا چلتا رہتا، لیکن اس واقعہ کے دوسرے روز ان کی گاڑی کی رفتار ناہموار ہو گئی۔
دوسرے دن پھر رحمت نور قدرے دیر سے برانچ میں داخل ہوا، لیکن پرتاپ سنگھ کو دیکھ کر اس کی پیشانی کے تمام شکن استوار ہو گئے۔ پرتاپ سنگھ نے بھی رحمت نور کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ رحمت نور نے قمیص کا تکمہ ڈھیلا کیا اور قمیص کو پنکھا بنا کر ہلاتے ہوئے کہا ’’اُف! کتنی گرمی ہے!— الامان!— الحفیظ!‘‘ لیکن آج پرتاپ سنگھ کی حالت غیر تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے لو‘ لگ گئی ہے۔ رحمت نور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آج خالصہ جی کی بکری بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
پرتاپ سنگھ خاموش رہا۔ رحمت نور بولا ’’ابے جھکّڑ سنگھ!‘‘
پرتاپ سنگھ نے پھر رحمت نور کی طرف دیکھا۔ مسکرایا اور بولا ’’خالصہ جی کی بکری نہیں بکرا ہوتا ہے۔‘‘اور پھر وہ بکرے کی طرح ممیایا۔
سب ہنس دیے اور گویا لوگوں کی دیوالی ہوتی ہے، سردار جی کا دیوالہ۔‘‘ خواجہ نے      دخل اندازی کرتے ہوئے کہا ’’جواب مسکت دیا ہے پرتاپ سنگھ نے۔ مان لیا ہم نے اسے۔ آج حالت غیر ہے لیکن پھر بھی — ہاتھی جیتا ایک لاکھ کا اور مرا ہوا سوا لاکھ کا۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے فخر سے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ خواجہ نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر رحمت نور کو جھڑکتے ہوئے بولا۔ ’’رحمت نور! بھئی واپسی جلدی دو۔ دیکھو سردار سب کچھ لَوٹا چکا ہے۔‘‘
’’جھک مارتا ہے سردار۔‘‘ رحمت نور نے کہا۔
خواجہ نے اپنے آپ سردار کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ’’بہتّر منی آرڈروں میں سے صرف تین واپس لایا ہے، صرف تین!‘‘
پرتاپ سنگھ نے فاتحانہ انداز سے رحمت نور کی طرف دیکھا اور کہا ’’رحمت نور اور کام!… اب بیچاری رنڈیوں کو بھی کاتنا پڑ گیا ہے۔‘‘
رحمت نور نے خواجہ کی طرف دیکھا، خواجہ مسکرا دیا اور رمز و کنایہ میں گویا اجازت دے دی۔ رحمت نور نے اس سرکاری تائید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تھیلے کو میز سے سرکا دیا۔ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور بائیں ہاتھ سے میز پر طبلے کی تھاپ دیتے ہوئے گانے لگا۔
بھائی جی دی کچھ وچ گوہ ڈر گئی
اک کڈھن لگے دو جی ہور ڈر گئی
)سردارجی کے کچہرے (سکھوں کی ایک شرعی پوشش) میں گوہ داخل ہو گئی ہے۔ ایک گوہ کو نکالنے لگتے ہیں، تو دوسری داخل ہو جاتی ہے(
سب کے سب اس زٹل قافیہ پر ہنسنے لگے۔ جنگ کی وجہ سے قیمتوں کی مہنگائی اور مشاہرے کی کئی سماجی دباؤ کی وجہ سے جذبات کا ضبط، سب کچھ ان ہی کلرکوں اور چٹھی رسانوں کے چہرے پر لکیروں کی صورت میں لکھا اور ہوائیوں کی صورت میں چھایا ہوا تھا۔ لیکن افسوس فحاشی اور دشنام طرازی کی وجہ سے انھیں یہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا اور وہ ہنسی خوشی اپنا کام کیے جاتے، بلکہ کام باقاعدگی اور تیزی سے ہوتا تھا۔ اس علیک سلیک کے بعد رحمت نور، پرتاپ سنگھ، ان کے ساتھی اور کلرک سب آسودہ خاطر ہو گئے۔ سارے دن کی مشقت کے بعد گویا تازہ دم ہو گئے۔
رحمت نور کا علاقہ— حلقہ جسے دفتری زبان میں تریسٹھ الف کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، بہت گندہ علاقہ تھا۔ یہ شہر کی نئی آبادی تھی۔ آج اگر سفید زمین ہوتی تو کل وہاں ایک خاصا محل کھڑا ہوتا— کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا، بھان متی نے کُنبہ جوڑا— کوئی ملتانی میں ’’روٹی میکو ڈھے‘‘ کہتا تو کوئی ’’کڈھائی و سنجنی‘‘کوئی پوٹھو ہار کی تہذیب کا باشندہ ہوتا، تو کوئی کشمیری   ککے زئی، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ، نتیجہ موسیقی نہیں، ایک بے ہنگم سا شور، نیم بورژوا سے لوگ جو محض اس بات پر خوش رہتے، کہ انھیں کسی کی پروا نہیں ہے، جو کسی کے مکان سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کا پتہ بتانے میں اپنی سُبکی سمجھتے۔ ایسے علاقے میں ڈاک تقسیم کرنا رحمت نور کا ہی کام تھا، اور پرتاب سنگھ کا علاقہ اس سے بھی بڑا تھا۔ صاف تھا، سُتھرا تھا، لیکن ریلوے کالونی کے ہر باشندے نے ایک کُتّا رکھا ہوا تھا جو ہر روز بلا ناغہ پرتاپ سنگھ کی گردن دبوچتا۔ دونوں نے اس کا حل نکالا ہوا تھا۔ رحمت نور نے علاقے کی عورتوں میں ہر دلعزیزی حاصل کر لی تھی اور پرتاپ سنگھ کتّوں سے بچنے کے لیے ایک آنہ روز کے چھیچھڑے خرید لیتا اور جب کوئی کتّا کاٹنے آتا تو پچکار کر چھیچھڑوں کی رشوت دے دیتا۔ اس کے باوجود گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں ان کی جان نکل جاتی۔ کہیں بخشش مل جاتی تو ایک آدھ گلاس سکنجبین کا پیا جاتا، نہیں تو ٹھنڈا پانی اور گھر کی رانی
دھوپ کی شدّت سے آج پرتاپ سنگھ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس کی مسلسل خاموشی کے باوجود رحمت نور نے اسے دبوچے رکھا اور پوچھنے لگا۔’’آج دیر سے کیوں آئے ہو پرتاپ سنگھ؟‘‘
’’تمھاری ماں کے ساتھ سو رہا تھا‘‘ پرتاپ سنگھ نے ایک غصیلے کتّے کی طرح باچھیں اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ رحمت نور ناراض نہیں، خوش ہوا کہ وہ پرتاپ سنگھ کو چڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ اچانک بائیں طرف سے ایک بادل کی گرج سنائی دی۔ یہ بادل نہیں تھا، رشید الدین ہیڈ کلرک صاحب تھے۔ لبوں کے کنارے کف کی ایک کافوری تحریر سی دکھائی دے رہی تھی۔ آنکھوں کے ڈبل کنکھیوں کے پیچھے سے چندھی سی آنکھیں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے دو چھوٹے چھوٹے پائپوں میں سے چنگاریاں نکل رہی ہوں۔ بولے ’’یہ دفتر ہے یا فحاشی کا اڈّہ؟ میں یہاں کسی کو گالیاں نہیں بکنے دوں گا۔‘‘
’’بات یہ ہے جناب‘‘ پرتاپ سنگھ نے جوابِ دعویٰ کے انداز میں کہا ’’میں … میں…‘‘
’’میں میں کا بچہ— خبردار جو آئندہ ایسا ویسا لفظ نکالا تو،،
’’میری بات…‘‘
’’میں کوئی بات وات سُننا نہیں چاہتا۔ سمجھے— میں پوسٹ ماسٹر کے سامنے اس امر کی شکایت کروں گا۔‘‘
سب خاموش ہو گئے۔ رپٹ پوسٹ ماسٹر صاحب کے حضور میں پیش کی گئی۔ پرتاپ سنگھ اور رحمت نور پر چارج شیٹ لگا۔ لیکن معاملہ تنبیہ سے آگے نہ بڑھا۔ بڑی خیر ہوئی۔ ایک باقاعدہ آفس آرڈر نکالا گیا جس میں اخلاقیات کے متعلق ایک فحش ابتدائیہ تھا اور اس کے بعد ایک غیر مرکب حکم تھا ۔’’جو کوئی چٹھی رساںمنی آرڈروں، چٹھیوں، بیرنگوں، پارسلوں، رجسٹریوں کی واپسی دیتے ہوئے فحش کلامی کرے گا، اسے فوراً معطل کر دیا جائے گا‘‘ اور ایمرجنسی پر قابو پانے کے لیے ہیڈ کلرک کے اختیارات بھی وسیع کر دیے گئے۔
اب دفتر ایک اچھا خاصا قبرستان بن گیا تھا۔ کان مقابل کی خاموشی کو پاکر سارا دن سائیں سائیں کرتے رہتے اور ہیڈ کلرک رشیدالدین آنکھیں بند کر کے رُوحانی منازل طے کرتا اور اپنے نفس کی بانگِ درا سُن کر حظ اٹھا تا۔ اس کی روح کا جو وقار تکلم سے ضائع ہوتا تھا، اب محفوظ تھا۔
رحمت نور ایک روز معمول سے زیادہ دیر میں آیا۔ اس کے چہرے کی لکیریں زیادہ گہری تھیں۔ آتے ہی اس نے اپنی تھیلی نیچے رکھ دی اور پنگ پانگ والی میز کے کنارے بیٹھ گیا اور واپسی کے کاغذ اور چیزیں بکھیر لیں
رحمت نور نے دونوں ہاتھ باندھ دیے اور منّت کے لہجہ میں بولا
’’خواجہ جی! اللہ رسول کے لیے مجھے تریسٹھ الف سے نکالیے۔ میں مر جاؤں گا۔‘‘
خواجہ نے روکھے پھیکے انداز میں کہا ’’یہ تم لوگوں کا بہانہ ہے، میں تمھاری شکایت کروں گا۔ کیا اس سے پہلے تم نے اس حلقے میں کام نہیں کیا— ؟‘‘
’’خواجہ جی‘‘ رحمت نے اسی طرح منّت سے کہا ’’اب اس رقبہ میں آبادی دوگنی ہو گئی ہے، شاید یہ آپ نہیں جانتے۔ اور اگر میرے کہنے پر آپ کو یقین نہیں ہے تو ٹاؤن انسپکٹر صاحب کو کہیے کہ وہ چل کر دیکھ لیں— ‘‘
اور پھر رازدارانہ لہجے میں بولا
’’آپ جانتے ہیں اوورسیئر بھی اپنے دفتر کے کیس کرنے کے لیے مجھے دیتا ہے اور خالد صاحب ٹاؤن انسپکٹر صاحب بھی۔‘‘
اور پھر رحمت نور سفید خاکی دیوار کی طرف دیکھنے لگا، جہاں ایک کیلنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن رحمت نور کو اس دیوار پر جانے کیا کچھ دکھائی دے رہا تھا، وہ کچھ دیر چُپ رہا، پھر بولا
’’خواجہ صاحب میری سفارش کیجیے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بال بچّے ہیں۔‘‘
اور رحمت نور منی آرڈروں کی رسیدیں پکڑ کر پھر دیوار کی طرف دیکھنے لگا۔ پرتاپ سنگھ آیا۔ اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور آتے ہی رحمتِ نور سے کچھ دور ہٹ کر بولا۔
’’چودھری صاحب سلام۔‘‘
چودھری صاحب نے لمبا سا مُنھ بناتے ہوئے کہا
’’وعلیکم السلام۔ کہیے مزاج تو اچھے ہیں‘‘؟
’’رحمت نور اور پرتاپ سنگھ اس رسمی گفتگو سے اتنے مایوس نہیں ہوئے، جتنے خواجہ صاحب۔ وہ ہکّا بکّا ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے انھوں نے پن ہولڈر اپنے دانتوں میں دبایا، اور پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے انھوں نے پن ہولڈر اپنے دانتوں میں دبایا، اور پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھے بغیر بولے۔
’’پرتاپ سنگھ واپسی دے دو۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے خواجہ صاحب کی طرف نہ دیکھا اور جلدی جلدی اپنے تھیلے میں سے منی آرڈر نکالنے لگا۔ ہیڈ کلرک صاحب نہ جانے کیوں ہانپتے سے اُٹھ کھڑے ہوئے، اور دونوں ہاتھ بغل میں دے کر کمرے کے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے اور منھ میں بڑبڑانے لگے۔
’’آج بہت دیر ہو گئی ہے—  بہت دیر— ‘‘
خواجہ صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا ’’جی ہاں— ہیڈ کلرک صاحب— پتہ نہیں کیا بات ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دن چھوٹے ہو گئے ہیں۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے منی آرڈر میز پر بکھیر دیے۔ خواجہ صاحب نے ایک نظر منی آرڈروں کی طرف دیکھا اور پھر قلم کو منھ میں رکھ لیا— رشیدالدین صاحب نے رسیدوں کی طرف دیکھا اور بولے— ’’پرتاپ سنگھ اتنی واپسی کیوں لائے ہو؟‘‘
پرتاپ سنگھ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔’’سرکار، یا بندے دوہری تہری کوشش کے باوجود نہیں ملتے۔ نہ جانے لوگ کدھر چلے گئے ہیں؟‘‘
ہیڈکلرک نے سراجی کبوتر کی طرح گردن پھُلاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں— ‘‘
رشیدالدین اپنی میز کی طرف جا رہے تھے، لیکن نہ جانے انھیں کیا خیال آیا، یکلخت پلٹ پڑے اور خواجہ صاحب سے خطاب کرتے ہوئے بولے’ ’خواجہ یار! ان کی کوتاہیوں کو ایرر بک میں نوٹ کر دینا۔ خواجہ اپنی کرسی سے اٹھا اور میاں صاحب تک پہنچتے ہوئے بولا— ’’میاں جی جھاڑ جھپٹ سے کام چل جاتا ہے تو کیا ضرورت ہے دفتری کارروائی کی؟ ریکارڈ خراب ہو جائے گا بے چاروں کا۔‘‘
ہیڈ کلرک نے کڑی نگاہوں سے خواجہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب شرارت ہو رہی ہے۔‘‘

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)