جو اے قاصد وہ پوچھے میرؔ
بھی ایدھر کو چلتا تھا
تو کہیو جب چلا ہوں میں تب اس کا
جی نکلتا تھا
سماں افسوس و بیتابی سے تھا کل قتل
کو میرے
تڑپتا تھا ادھر میں اور ادھر وہ
ہاتھ ملتا تھا
کیا کہیے عشق حسن کا آپھی طرف ہوا
دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا
کیونکر میں فتح پاؤں تری زلفوں پر
کہ اب
یک دل شکست خوردہ مرا دو طرف ہوا
بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا
لباس دیکھ لیے میں نے تیری پوشش کے
کہ بعد مرگ کنھیں نے مجھے کفن نہ
دیا
کھلی نہ بات کئی حرف تھے گرہ دل
میں
اجل نے اس سے مجھے کہنے اک سخن نہ
دیا
No comments:
Post a Comment