تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی
گرد کا
مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا
کیا ڈر اسے ہے گرمی خورشید حشر سے
سایہ پڑا ہے جس پہ مری آہ سرد کا
ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا
تماشے دیکھتے ہنستا چلا آ
کرے ہے شیشہ بازی میرا رونا
مرا خوں تجھ پہ ثابت ہی کرے گا
کنارے بیٹھ کر ہاتھوں کو دھونا
وصیت میرؔ نے مجھ کو یہی کی
کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا
No comments:
Post a Comment