جیسی ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر
ہو جائے گی
انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی
سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ امید پر
جستجو آئینۂ مدو جزر ہو جائے گی
درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا اندیشہ یہ ہے کار گر ہو جائے گی
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ
ہے
ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی
٭٭٭
No comments:
Post a Comment