ابراہم لنکن کا والد ایک
کاریگر انسان تھا، وہ کسان بھی تھا، جولاہا بھی او ر موچی بھی، وہ جوانی میں
کارڈین کاؤنٹی کے امراء کے گھروں میں جاتا تھا اور ان کے خاندان کے جوتے سیتا تھا،
1861ء میں ابراہام لنکن امریکہ کا صدر بن گیا، اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں،
تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا، جوسینٹ میں اپنی کمیونٹی کے
مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنا تو اس نے امریکہ میں غلامی کا
خاتمہ کر دیا، اس نے ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کر کے فوج
میں شامل کر لیا ، امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں
چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے، یہ ابراہم لنکن کی شہرت کو بھی نقصان
پہنچاتے تھے اور اس کی کردار کشی کا بھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے، یہ لوگ
سینٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑاتے تھے لیکن لنکن کبھی اس مذاق
پر دکھی نہیں ہوا، وہ ہمیشہ کہتا تھا میرے جیسے شخص کا امریکہ کا صدر بن جانا ان
تمام لوگوں کے ہزاروں لاکھوں اعتراضات کا جواب ہے چنانچہ مجھے جواب دینے کی کیا
ضرورت ہے۔ ابراہم لنکن کس قدر مضبوط اعصاب اور حوصلے کا مالک تھا آپ اس کا اندازہ
اس واقعے سے لگا لیجئے، یہ اپنے پہلے صدارتی خطاب کیلئے سینٹ میں داخل ہوا، یہ صدر
کیلئے مخصوص نشست کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور
ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا کہ
"تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے
قہقہ لگایا۔
لنکن مسکرایا اور سیدھا ڈائس پر چلا گیا اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر بولا ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘ ابراہم لنکن نے تقریر ختم کی اور صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا، پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا، لنکن پر فقرہ کسنے والے سینیٹر نے شرمندگی کے عالم میں سر جھکایا اور اس کے بعد کسی امریکی سیاستدان نے لنکن کو موچی کا بیٹا نہیں کہا۔
ابراہم لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو ایک شہرہ آفاق خط لکھا
لنکن مسکرایا اور سیدھا ڈائس پر چلا گیا اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر بولا ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘ ابراہم لنکن نے تقریر ختم کی اور صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا، پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا، لنکن پر فقرہ کسنے والے سینیٹر نے شرمندگی کے عالم میں سر جھکایا اور اس کے بعد کسی امریکی سیاستدان نے لنکن کو موچی کا بیٹا نہیں کہا۔
ابراہم لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو ایک شہرہ آفاق خط لکھا
"میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا
کرنے کی کوشش کیجئیے کہ یہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائیے کہ جو کچھ سنے
اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور درست ہو تو عمل کرے۔
اسے دوستوں کیلئے قربانی دینا سکھائیے ۔
اسے بتائیے کہ اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے، اسے بتائیے کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔
اسے سمجھائیے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے اور خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار رہے۔
اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے بتائیے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر قائم رہے، ڈٹا رہے۔
آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آئیے مگر پیار اور دلاسہ مت دیجیئے۔ کیونکہ یاد رکھئیے، خام لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔
اسے سیکھنا ہو گا کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے یہ بھی بتائیے کہ ہر غنڈے کے مقابلے میں ایک ہیرو بھی ہوا کرتا ہے۔ ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے۔
آپ اسے حسد سے دور کر دیں ۔ اگر آپ کر سکیں تو اسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بھی بتائیے۔
اس کو یہ سیکھ لینا چاہئے کہ بدمعاشوں کا مقابلہ کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔
اگر آپ بتا سکیں تو اسے کتابوں کے سحر کے بارے میں بتائیے، لیکن اسے اتنا وقت ضرور دیجیئے کہ وہ آسمانوں پر اڑنے والے پرندوں کے دائمی راز، شہد کی مکھیوں کے سورج سے تعلق اور پہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر بھی غور کر سکے۔
اسے بتائیے کہ سکول میں نقل کر کے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ باعزت ہے۔
اسے بتائیے کہ جب سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہے تو اپنے خیالات پر پختہ یقین رکھے ۔"
اسے دوستوں کیلئے قربانی دینا سکھائیے ۔
اسے بتائیے کہ اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے، اسے بتائیے کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔
اسے سمجھائیے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے اور خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار رہے۔
اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے بتائیے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر قائم رہے، ڈٹا رہے۔
آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آئیے مگر پیار اور دلاسہ مت دیجیئے۔ کیونکہ یاد رکھئیے، خام لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔
اسے سیکھنا ہو گا کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے یہ بھی بتائیے کہ ہر غنڈے کے مقابلے میں ایک ہیرو بھی ہوا کرتا ہے۔ ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے۔
آپ اسے حسد سے دور کر دیں ۔ اگر آپ کر سکیں تو اسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بھی بتائیے۔
اس کو یہ سیکھ لینا چاہئے کہ بدمعاشوں کا مقابلہ کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔
اگر آپ بتا سکیں تو اسے کتابوں کے سحر کے بارے میں بتائیے، لیکن اسے اتنا وقت ضرور دیجیئے کہ وہ آسمانوں پر اڑنے والے پرندوں کے دائمی راز، شہد کی مکھیوں کے سورج سے تعلق اور پہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر بھی غور کر سکے۔
اسے بتائیے کہ سکول میں نقل کر کے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ باعزت ہے۔
اسے بتائیے کہ جب سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہے تو اپنے خیالات پر پختہ یقین رکھے ۔"
No comments:
Post a Comment