تم مِرے پاسِ رہو، پاسِ ملاقات رہے
نہ کرو بات کسی سے تو مِری بات رہے
ہو سرافرازِ یقیں، حدّ ِ تصّور سے گُزر
وہ بھی کیا عشق جو پابندِ خیالات رہے
میں نے آنکھوں سے نہ دیکھی سَحَرِشامِ فراق
شمع سے پہلے بُجھا ایک پہر رات رہے
ذہن ماؤف، دِل آزردہ، نگاہیں بے کیف
مر ہی جاؤں گا جو چندے یہی حالات رہے
دَیر میں آنے کی تکلیف تو کی ہے سیماب
یاد کعبے کی بھی اے قبلۂ حاجات رہے
No comments:
Post a Comment