ایسا
نہیں ہونے دینا
میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن
ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر
اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب
لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر
اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی
فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی
باتیں
نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی
باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی
آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی
طرح
اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ
وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح
پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ
دعاؤں کے دئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت
کی وِداع
صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ
گئی
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا
انگارِ حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ
کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل
رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک
ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں
اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا
ندیم
نوکِ دشتاں سے کھنچی تھی میری
مٹی کی لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے
لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت
ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے
لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل
کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے
لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
ایسا نہیں ہونے دینا
No comments:
Post a Comment