اب
دردِ دل علاج و دوا سے گزر گیا
اُن
کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ
مقامِ صوت و صدا سے گزر گیا
اعجازِ
بے خودی ہے کہ حُسنِ بندگی
اِک
بُت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
انصاف
سیم و زر کی تجلّی نے ڈس لیا
ہر
جرم احتیاجِ سزا سے گزر گیا
اُلجھی
تھی عقل و ہوش میں ساغر رہ حیات
میں
لے کے تیرا نام فنا سے گزر گیا
ساغر
صدّیقی
No comments:
Post a Comment