ابھی کچھ
اور کرشمے ــ غزل کے دیکھتے ہیں
فرازؔ ــــ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو
مقدر ہیں ـ ـ پھر بھی جانِ سفر
کچھ اور دُور ذرا ــ ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
رہِ وفا
میں ـ ـ حریفِ خرام کوئی تو ہو
سو ــــ اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے
ہے ـ ـ تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو ــ مَل کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ
ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ــ مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قُرب
کیا ہے ـ ـ کہ یکجاں ہوئے ، نہ دُور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ــ ڈھل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو
مات ہوئی ہے ـ ـ نہ مُجھ کو مات ہوئی
سو ــــ اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے ـ ـ
سرِ ساحل کہ ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے ــ اُچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک
تو نہ کندن ہوئے ـ ـ نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ــ ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں
سے نہیں ہے ـ ـ کچھ اُس کی خیر خبر
چلو ــــ فرازؔ کو اے یار چل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment