ہے
دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے
نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں
نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں
وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
ہم
نےجن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا پہلو
ہم
سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
صرف
دھندلائےستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب
ھوا؟ کون ھوا؟ مجھ سے خفا یاد نہیں
زندگی
جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے
کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ
اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ
کہتے ہیں کہ''ساغر'' کو خدا یاد نہیں
(ساغرصدیقی)
No comments:
Post a Comment