*ابن انشاء اور قتیل شفائی*
ابن انشاء کا کلام*“انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو“*
جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ وفات پاگئے تھے۔
اس کے بعد قتیل شفائی نے غزل لکھی *“یہ کس نے کہا
تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی“*، دونوں غزلیں اپنے اعتبار سے اردو ادب ميں
ایک اچھا اضافہ ہيں۔
ہاں، یہ اور بات ہے کہ قتیل صاحب کی غزل زیادہ
افسردہ کر جاتی ہے۔
*-*انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو
لگانا کيا
*-*وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں
ٹھکانا کيا
*-*اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو
سہی
*-*جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا
پھيلانا کيا
*-*شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی
دروازے میں
*-*کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا
کيا
*-*پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی
ايک گھڑی
*-*جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا
کيا
*-*اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم
لگتا ہے
*-*اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی
افسانہ کیا
*-*اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو
نہ سکيں
*-*جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ
خزانہ کيا
*-*اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال
بھبوکا بن
*-*یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل
جانا کیا
*-*جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا
بسرام کرے
*-*ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
***********************************
*-*یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشاء
جی
*-*یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاء
جی
*-*جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے
پیار کریں
*-*کیا اِن سے بھی منہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ
انشاء جی
*-*کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری
چاہت کی
*-*تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشاء
جی
*-*تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی
مانو
*-*کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ
انشاء جی
*-*بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ
پر
*-*پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشاء
جی
*-*اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا
دروازے کو
*-*کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشاء جی
*-*نہیں صرف *“قتیل“* کی بات یہاں، کہیں *“ساحر“*
ہے کہیں *“عالی“* ہے
*-*تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشاء
جی....!!
No comments:
Post a Comment