وقت سفر
قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہوا
حیات کا دفتر سمیٹ لوں
پھر جانے
ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رکو
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لوں
یاروں نے
جو سلوک کیا اس کا گلہ کیا
پھینکے ہیں دوستوں
نے جو پتھر سمیٹ لوں
کل جانے
کیسے ہوں گے کہاں ہوں گے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں
تار نظر
بھی غم کی تمازت سے خشک ہے
وہ پیاس ہے ملے تو سمندر سمیٹ لوں
اجملؔ بھڑک
رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے کہ سینے کے اندر سمیٹ لوں
اجمل اجملی
No comments:
Post a Comment