تیری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں
جگر فروز شراروں سے کھیل سکتا ہوں
تمہارے دامنِ رنگین کا آسرا لے کر
چمن کے مست نظاروں سے کھیل سکتا ہوں
کسی کے عہدِ محبت کی یاد باقی ہے
بڑے حسین سہاروں سے کھیل سکتا
ہوں
مجھے خزاں کے بگولے سلام کرتے
ہیں
حیا فروش چناروں سے کھیل سکتا
ہوں
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر
ساغر
سرورو کیف کے دھاروں سے کھیل سکتا ہوں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment