Monday 19 June 2017

A Beautiful Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi,


سارگام کے بھوکے
راجندر سنگھ بیدی
 بہت سوکھا پڑ گیا تھا… ایک [بھی] دانہ جوار کا پیدا نہیں ہوا تھا۔
دینا بھاگتی ہوئی جھونپڑی میں داخل ہوئی اور چلاّئی —— ’’دادی ، بادل!… ‘‘بس، اُس کا یہ کہنا تھا کہ سب نکل کر باہر آکھڑے ہوئے ——جھونپڑیوں سے باہر کھیتوں کی مینڈ پر، جہاں پانی نہ ہونے کے کارن بڑی بڑی (درزیں) [دراڑیں] نظر آ رہی تھیں، جیسے بہت بڑے بھوکمپ کے بعد دھرتی میں نظر آتی ہیں۔
دور قصبہ جمبو گھوڑا کی مخالف سمت سے بادل نظر آ رہے تھے، جو ہولے ہولے آسمان کی طرف اُٹھتے دکھائی پڑتے [تھے]۔ ’’بادل‘‘ ’’بادل‘‘… جوان، بوڑھی، بچکانہ آوازیں آئیں۔ دینا کی بوڑھی دادی نے آنکھیں سُکیڑکے دیکھا اور پژمردگی کے ساتھ بولی ’’رانڈ! بادل کہاں ہیں؟— دھُول ہے!‘‘
کرشن کنھّیا کی سرزمین گجرات میں تھا یہ گانو… تھا (میں) اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب یہ گانو وہاں نہیں ہے۔ اُس کی سب جھونپڑیاں جلا کر راکھ کی جاچکی ہیں۔ لیکن جب یہ موجود تھیں تو ان میں غریب، بے حد غریب لوگ (بستے) [رہتے] تھے——کسان ، موچی، گوالے، ٹمرو کے پتّوں کی بیڑیاں بنانے والے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ کسان نے کبھی صرف کسان کا کام نہ کیا، [نہ ہی] موچی نے موچی کا۔ ایک ہی کام سے پیٹ نہ بھرتا تھا۔ گوالنیں آس پاس کے قصبوں میں دودھ اور عصمت بیچ کر چلی آتیں، جب بھی اُنھیں جنگل سے بانس کاٹ کے لانے پڑتے، جن سے وہ ڈولیاں ، مونڈھے، پنکھے بناتیں۔ کچّے بانس کا اچار ڈالتیں اور جمبو گھوڑا میں بیچ آتیں۔ لیکن جب کبھی محکمۂ جنگلات کے کارندے چوکس ہو جاتے، یہ کام بھی بند ہو جاتا۔ پھر ننھّے ننھّے بچّے چوری چھپّے کانٹوں سے (لدے) [بھرے] ہوئے ببول پہ چڑھ کے گوند اور موم اُتارتے اور ایسے ہی دوسرے پیڑوں پر سے لاکھ اور شہد۔ اور اُن کے بڑے ، ویسے ہی چوری چھُپّے اُسے پانچ محل ضلع کے مختلف قصبوں ، جمبو گھوڑا، ہلول ، کلول اور بھلوڈ وغیرہ میں بیچ ڈالتے
کئی کاروبار آپ سے آپ بند ہو گئے۔ آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا—— گوالوں نے ایکا ایکی گوالنوں کو شہر بھیجنا بند کر دیا۔ اس لیے کہ بھوکی ہونے کے باوجود وہ     خوب صورت تھیں۔آج سے ہزاروں سال پہلے کرشن کنھیّا نے ان کے کان میں جو بانسری کی تان پھونکی تھی، وہ انھیں آج تک سنائی دے رہی تھی… ہاں، کرشن کنھیّا نہیں تھے، اُن کی جگہ اور ہی قسم کے لوگ تھے، بھوک اور بے کاری سے تنگ آ کر جنھوں نے عشق کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا
(یہ طے ہوا) [طے یہ ہوا] کہ وہ بادل نہیں (دھول ہے صرف) [صرف دھول ہے]… اور سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئے۔ دینا کے ساتھ اُس کی دادی تھی۔ ادھیڑ عمر کا باپ تھا ،جو کہ نیم پاگل تھا۔ جسے ہمیشہ یہ وہم رہتا تھا کہ ساری دنیا اُسے مارنے (اُسے تباہ اور برباد) [اور تباہ] کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ایک مستقل قسم کا ڈر اور خوف اُس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا۔ جب تک اُس سے بن پڑی، اُس نے حالات کا مقابلہ کیا لیکن اب ——آخر میں ہتھیار ڈال دیے۔ وہ ہر اَن ہونی کو قبول کر لیتا اور کہتا —— ’’میں تو کہتا تھا یہ ہو کے رہے گا‘‘ اور (اب) [پھر] اپنی بیوی کی موت کے بعد [اُس کی] رہی سہی مدافعت بھی جاتی رہی [تھی۔] (اُس کی۔)
آسمان سے دھول صاف ہوئی اور مہوے کے سوکھے ہوئے پتّوں کے پیچھے سے کچھ شکلیں ظاہر ہوئیں ۔ پیچھے سورج ڈوب رہا تھا اور ڈوبتے ڈوبتے اُس نے آسمان پر کچھ خونیں سے چھینٹے پھینک دیے، جو کہ دینا کے گھر میں پھیلے سوگ کو اور سوگوار (بنا رہے) [بنانے لگے] تھے… اچانک جھونپڑے کے باہر سے آواز آئی۔
’’اے گووند—‘‘
دینا کا باپ، گووند اِس آواز کو پہچانتا تھا۔ وہ ایک دم خوف کے جذبے سے کانپ اُٹھا اور جیسے بچّے ڈر کر ماں کی گود میں جا چھپتے ہیں، وہ بھی اپنی بوڑھی ماں کے پاس دبک گیا اور بولا— ’’ماں! مقدّم ہے ——ماں، مقدّم پھر آ گیا… ‘‘ ماں بولی— ’’تو جا، اُسے جواب دے نا… (مرد ہے) [بڑا مرد بنا ہے]…‘‘
دینا بولی ’’تم ٹھہرو باپو—میں جاتی ہوں۔‘‘ اِس سے پہلے کہ کوئی اُسے روکتا، مقدّم جھونپڑی میں آچکا تھا۔ یہ سب لوگ نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے جب مقدّم ٹانگیں پھیلا کے کھڑا ہوا تو وہ اور بھی بڑا لگنے لگا… اُس نے اپنی دھوتی کا ایک پلّو بہت (اونچا) [اوپر] اُٹھا رکھا تھا۔ ٹانگیں رانوں تک ننگی تھیں۔ کالی ٹوپی سر پر گُدّی کی طرف سرکی ہوئی تھی۔ موٹے موٹے کھُلے ہوئے ہونٹ … اُن کے پیچھے چھدرے چھدرے دانت۔ منھ پان کی پیک سے بھرا ہوا، وہ بالکل بھیروں کی تصویر معلوم ہو رہا تھا۔ آتے ہی [وہ] بولا— ’’تمھاری بیوی مری ہے گووند؟‘‘
’’ہاں…ہاں‘‘ گووند نے کچھ سنبھل کر کہا۔ ’’ہاں مقدّم جی۔ میری بیوی مرگئی… مرگئی!‘‘
’’مر گئی تو کیا‘‘ مقدّم نے نفرت سے کہا ’’مرد ہو کے روتا ہے سالے؟ تو آدمی ہے یا شِکھنڈی ہے کوئی؟…‘‘
(’’ای… ای…‘‘) گووند کے منھ (سے اتنی سی آواز نکلی۔) [میں آواز ڈوب گئی۔] جس ہمدردی کے لیے وہ رو دیا تھا، وہ اُسے نہ ملی۔ اپنی رُلاہٹ کو دبا کر وہ بیٹھ گیا۔ آپ سے آپ اُس کے ہاتھ کھٹیا کے نیچے ٹمرو کے سوکھے پتّوں کی طرف اُٹھ گئے۔ پتّہ نکال کر ، جلدی سے اُس نے ایک بیڑی بنائی اور مقدّم کو دیتے ہوئے بولا— ’’آپ کی کیا (کھاطری) [سیوا] کریں، مقدّم جی؟‘‘
دینا، پیٹھ مقدّم کی طرف کیے لیکن منھ موڑ کے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یوں کہ اُس کی بڑی سی چوٹی گلے کا ہار بنتی ہوئی پُٹھّے پر گر رہی تھی۔ مقدّم نے گووند سے بیڑی لے لی۔ ایک اُچٹتی ہوئی نظر سے دینا کی طرف دیکھا اور بولا ’’(کھاطری) [سیوا] تو پھر بتاؤں گا۔ پہلے یہ بتا کہ تو نے رپٹ لکھائی ہے ——بھوکی مر گئی بسنتی؟‘‘
گووند چُپ رہا۔ دادی بھی چُپ رہی—(ہاں کہیں یا نہ) [کیا کہیں]—اُن کی سمجھ میں نہ آیا۔ دینا ایک دم جو پلٹی تو مقدّم کے رو بہ رو کھڑی ہو گئی اور تڑ سے بولی۔ ’’میں نے لکھوائی ہے— ماں بھوکی رہ کر مر گئی۔ اِس میں کوئی جھوٹ ہے؟‘‘
’’جھوٹ ہے‘‘ مقدّم نے غصّے سے کہا ’’وہ بھوکی نہیں مری۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ دینا بولی ’’وہ بھوکی مری ہے—بھوکی!‘‘
’’چپ رہ ‘‘ مقدّم نے بلند آواز سے کہا۔
دادی بولی ’’اری کتیا! تو ، (چُپ کرتی) [چُپتی] ہے یا نہیں؟‘‘
’’یہ میری اولاد نہیں ہے، یہ نہیں ہے میری اولاد‘‘ گووند نے بیٹی کو دو چار گالیاں سناتے ہوئے کہا ’’جانے کون مردود اِسے چھوڑ گیا ہمارے گھر میں—‘‘
’’باپو!‘‘ دینا کڑک کر بولی۔
’’ارے!‘‘ مقدّم نے حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا ’’پھر زبان کھولی تو یاد رکھیو… باہر چار (مشٹنڈے کھڑے ہیں تیرے لیے… برابر کر دیں گے…‘‘) [چار خصم کھڑے ہیں ترے…‘‘] دینا بولی (’’ہاتھ تو لگا کے دیکھیں… ایک ایک کو کچّا کھا جاؤں) [’’خصم ہوں گے تیری ماں بہن کے…] جو سچ ہے وہ سچ ہے، جو جھوٹ ہے سو جھوٹ—‘‘ اور دینا کی آواز میں (وہی حوصلہ تھا) [گرج تھی] جو ایک ڈرے ہوئے آدمی کی آواز میں (ہوتا) [ہوتی] ہے۔ جب اُسے یقین نہیں آتا کہ [ایک] انسان دوسرے انسان پر اتنا (بھی) ظلم [بھی] کرسکتا ہے؟… جب بھی [؟؟] بچ جانے کی کوشش میں وہ خالی برتنوں کو الٹنے پلٹنے لگی۔ گووند بولا ’’آپ اِس کی باتوں پر نہ جائیے، مقدّم جی … جو آپ کہتے ہیں ہم وہی کریں گے—‘‘
’’(بس) میں تم سے (یہی کہتا ہوں) [کچھ نہیں کہتا‘‘] مقدّم بولا۔ [’’کہنا ہے تو بس یہی] تم اپنی رپٹ واپس [لے] لو۔‘‘
(’’کیسے واپس لے لیں؟‘‘) [’’سو تو ہم مانتے ہیں۔ پر اب… کیسے واپس لے لیں رپٹ؟‘‘] ’’بس ——اِتنا سا لکھ دو ۔ تمھاری بیوی نے تربوز کھایا، اوپر سے پانی پیا اور ہیضے سے مرگئی…۔‘‘
گووند نے کہا [’’تو پھر—]آپ [ہی] لکھ دیجیے، [میں] انگوٹھا [میں] لگا دیتا ہوں۔‘‘
مقدّم نے جلدی جلدی کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا۔ پھر باہر کی طرف منھ کر کے آواز دی —(’’ارے) [او] رتنو!‘‘… ایک ہٹّا کٹّا، سیہ فام ، مچھیل کناڈا اندر آیا۔ (اور) مقدّم نے اُس سے پیڈ مانگا (اور) پھر گووندکا انگوٹھا پیڈ پہ رکھ کے اُے کالا کیا اور [آخر] کاغذ پہ لگا دیا— دینا دیکھتی رہی اور کُڑھتی رہی۔ دادی دونوں ہاتھ سر پر رکھے یوں بیٹھی رہی، جیسے کوئی بڑی ہی مصیبت میں بیٹھتا ہے۔ سارگام کے کچھ موچی اور گوالنیں جو (تماشا) [یہ سب] دیکھنے (کے لیے) چلی آئی تھیں ، مقدّم کی ایک ہی ڈانٹ سے چلتی بنیں۔
مقدّم نے اطمینان کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھا [اور] پھر (اُس نے) اشارہ کیا (اور) رتنو کناڈا [اپنے آپ ] باہر چلا گیا۔ گووند سمجھا (گلو خلاصی ہوئی) [چلو جان بچی۔] اُس نے خفّت کا پسینہ پونچھنے کے لیے (ہاتھ جو) منھ پہ [جو حصّہ؟؟] پھیرا تو ہاتھ کی کالک منھ پہ چلی آئی۔ مقدّم ہنسنے لگا اور اُس کا ساتھ دینے کے لیے گووند بھی ہنس دیا اور بولا (اب بتایئے) [’’کہیے نا—] آپ کی کیا (کھاطری) [سیوا] کریں؟… بسنتی تو آپ جانتے ہیں، آپ کے پانو زمین پہ نہیں پڑنے دیتی تھی—‘‘
’’ہاں ، ہاں‘‘ مقدّم نے مزے سے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میرے اور اپنے بھی—‘‘ اور پھر (ہنس دیا) [کھلکھلا کے ہنس دیا۔] اِس بات کو گووند سمجھا، نہ دادی، نہ دینا۔ بات صرف ہنسی میں ٹل گئی۔ مقدّم نے (معاملہ چھیڑا) [بات آگے بڑھائی] اور بولا ’’کیا ہوا بسنتی نہ رہی — دینا جو ہے … کیا ہاتھ پیر نکالے ہیں۔ کمر پتلی اور کولھے اِتنے بڑے بڑے […] ہے بھگوان! (—) پوری گجراتن ہے۔‘‘
(خبردار) [’’کھبردار]—موئے مُشنڈے جو ایسی (اُلٹی سیدھی) باتیں کیں (تو)…‘‘ دینا تنک کر بولی۔
’’ارے!‘‘ مقدّم نے حیرانی سے کہا (تیری ماں تو ایسی نہ تھی) [’’تو اور کِس پر گئی ہے— ماں پر نہیں گئی!‘‘] (نہ ہو گی) دینا نے (لہک) [چمک] کرکہا ’’وہ تیرے ایسے پولیسئے کی بیٹی تھی، میں نہیں…‘‘
مقدّم (برابر ہنستا رہا۔) [بات ہنسی میں ٹال گیا۔]کھاٹ پر بیٹھتے اور بیڑی سُلگاتے ہوئے بولا ’’تو بھی تو (کسی) پولیسئے کی بیٹی ہے۔ پوچھ (باپ) [باپو] سے —— ’’اور اُس نے دینا کے باپ کی طرف دیکھا، جس کا کالا منھ بھیانک معلوم ہو رہا تھا (جسے) [اور اُس منھ کو] اچھّی طرح سے اُٹھانے کی اُس میں ہمّت نہ تھی۔ دادی پہلے ہی سر دونوں ہاتھوں میں دیے بیٹھی تھی۔ دینا نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’اچھّا! میں ہوں تیرے ایسے پولیسئے کی بیٹی… تب تجھے بیٹی سے ایسی باتیں کرتے شرم نہیں آتی؟‘‘
(’’میری تھوڑے ہے‘‘ مقدّم بولا۔ ’’کسی اور کی ہو گی، میرے بھائی کی… تو آنا میرے پاس—‘‘)[’’میرے ایسے کی ہے نا—میری تو نہیں‘‘ مقدّم نے کہا اور پھر ہاتھ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’آ جا میرے پاس—‘‘] (اور مقدّم اُٹھ کر دینا کی طرف بڑھا۔) [اور وہ اُٹھ کر خود دینا کی طرف بڑھ گیا۔] باپ چُپ رہا۔ دادی خاموش رہی۔ زمین نہ ہلی، آسمان نہ ٹوٹا۔ مقدّم نے دینا کے ہاتھ پکڑ لیے۔ دینا نے اُس کا منھ نوچنے کی کوشش کی۔ آخر مجبور ہو کر ایک ہاتھ آزاد کیا اور پاس پڑے موصل کو اُٹھا کر مقدّم کے سر پہ دے مارا۔ شور مچ گیا۔ رتنو کناڈا اور اُس کے ساتھی اندر چلے آئے… اس چیخ پکار میں سارگام کے دوسرے لوگ، ایک دوسرے کے گلے لگے دبکے رہے۔ سب جانتے تھے، کیا ہو رہا ہے؟ مگر کسی کی ہمّت نہیں پڑتی تھی… کوئی بچاؤ۔ ارے کوئی بچاؤ۔ چاچُو ، سُبو، کھوکھی…مگر کسی نے آواز نہ دی۔ سب کچھ صاف سنائی دے رہا تھا—میری ماں بھوکی مری ہے، بھوکی مری ہے، میں اُس کی رپٹ لکھواؤں گی۔ میں اپنی رپٹ لکھواؤں گی… مار ڈالو، (نہیں) مجھے مار ڈالو ——ماں… [ہائے] ماں [ری[…
جب تک سورج ڈوب چکا تھا۔ پچھم میں خون کے چھینٹے کرشن پکش کی سیاہی میں گم ہو گئے۔ (سب) آوازیں بند ہو گئیں—ایک سنّاٹا چھا گیا ۔ صرف جنگل سے گیدڑوں کی (ہُواں ہُواں) [آوازیں] سنائی دیتی (رہی) [رہیں۔] (پھر) [آخر] پو پھٹی اور سورج نے اپنا سونا اُگلنا شروع کیا، جس نے شفق کی لالی دھو ڈالی… سب لوگ پچھلی شام کی طرح جھونپڑوں کے باہر کھیتوں کی مینڈ پر کھڑے تھے اور مقدّم اور اُس کے ساتھیوں کو رخصت کر رہے تھے۔ زمین کی درزیں بڑی بڑی نظر آ رہی تھیں۔ کال کے بھونچال نے (بہت) بڑے بڑے شگاف پیدا کر دیے تھے۔
[——] مقدّم جا رہا تھا۔ اُس نے گووند کو سمجھا بجھا دیا، مگر جھونپڑی کے اندر سے کبھی کبھی آواز آتی۔ میری ماں بھوکی مری ہے۔ میں اُس کی رپٹ لکھواؤں گی۔ میں اپنی رپٹ لکھواؤں گی۔ میری ماں ہی نہیں سارگام کے آٹھ آدمی بھوکے مرے ہیں۔ اُنھیں ہیضہ نہیں ہوا۔ اُنھیں سیتلا نے نہیں کھایا۔ وہ بھوکے مرے ہیں۔ بھوکے… میں سب کو بتاؤں گی۔ دنیا جہان کو خبر کر دوں گی
مقدّم کا دوسرا پڑاؤ خود جمبو گھوڑا تھا۔ قصبے میں ایک دوسرے کا سہارا لیے لوگ دیر تک جی سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح اپنے گھاؤ چھپا سکتے ہیں، لیکن یہاں بھی بھوک سے موتیں ہوئی تھیں اور مقدّم اُن کی تحقیق کرنے جا رہا تھا۔
وہ بہت فکرمند نظر آ رہا تھا۔ اُسے اپنی عزّت بچانا تھی۔ سب ڈویژن کے افسروں کی عزّت بچانا تھی اور اِس کے لیے اُسے (ہتھیار چاہیے تھے۔)[کیا کچھ کرنا تھا۔] ورنہ وہ [سب] بمبئی کی سرکار کو کیا جواب دیں گے؟ بمبئی کی سرکار (دہلی) [دلّی] کی سرکار کو کیا جواب دے گی؟
جمبو گھوڑا کے مضافات میں پہنچتے ہی مقدّم کو ایک نوجوان کے مر جانے کی خبر ملی۔ وہ ایکا ایکی گھبرا گیا۔ آخر وہ کب تک بھوکے مرنے والوں کو ہیضے کا شکار بتاتا رہے گا۔ اسی گھبراہٹ میں وہ پولس چوکی پہنچ گیا۔
سب انسپکٹر سے لے کر معمولی کانسٹبل تک سب کیل کانٹے سے لیس کھڑے تھے۔ سب ڈویژن سے آیا ہوا مقدّم اُن کے لیے بہت بڑا آدمی تھا۔ سب انسپکٹر نے مقدّم کو سلیوٹ کیا۔ بٹھایا۔ مقدّم نے اُسے بتا دیا۔ سارگام سے کچھ لوگ آئیں گے اور اُلٹی سیدھی باتیں کریں گے۔ تُم اُن کی رپٹ مت لینا۔ سب انسپکٹر نے مشکوک انداز میں کہا۔ ’’اچھّا——اچھّا مقدّم (صحیب) [صاحیب۔]‘‘
مقدّم نے اپنی کالی ٹوپی اُتار کر [پولس] چوکی کے صحن میں پڑی ہوئی کھاٹ کے پایے پر رکھ دی اور سب کو درجہ بہ درجہ بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ (سامنے انسپکٹر) [انسپکٹر سامنے] ٹھوس چوبی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مقدّم بولا۔
’’کتنی موتیں ہوئیں جمبو گھوڑا میں؟‘‘
’’دس‘‘ انسپکٹر نے کہا۔
’’بھوک سے کتنے مرے؟‘‘
’’چھے آدمی مرے ہیں—— تین بچّے، دو عورتیں اور ——ایک مرد!‘‘
مقدّم نے کہا ’’آپ تو سمجھتے ہیں (اپنے) [عقل کے] گھوڑے دوڑائیے (…اور) ایسا بندوبست کیجیے کہ اوپر کے ا فسروں تک یہ بات نہ پہنچے۔ لکھ دیجیے، کچھ لوگ محرِّقہ بخار، قولنج ، تپِ دق وغیرہ سے مرے ہیں۔‘‘
’’مگر … کب تک ایسا کرتے رہیں گے؟‘‘ سب انسپکٹر نے پھر مشکوک لہجے میں کہا ’’موتیں روز بڑھتی جا رہی ہیں۔‘‘
’’دیکھیے انسپکٹر صاحب۔ ‘‘ مقدّم نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ’’اگر آپ ایسا نہیں کریں گے، تو گودھرا والے آپ سے ناراض ہو جائیں گے۔ آپ فکر کیوں کرتے ہیں؟ بمبئی سے گیہوں، چاول کی بوریاں چل چکی ہیں۔ امریکا سے اناج آ رہا ہے… جب تک آپ افسروں کی عزّت رکھ لیجیے۔ سالے وقت پر کام کرتے نہیں، بعد میں پتلون ڈھیلی ہوتی ہے… اور سُنیے—پنڈت نہرو گجرات کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اگر اُنھوں نے اوپر کے کسی افسر کا ٹین پاٹ کر دیا تو ساتھ آپ کا بھی ہو جائے گا۔‘‘
انسپکٹر چونکا ’’پنڈت جی یہاں بھی آنے والے ہیں؟‘‘ اُس نے پوچھا اور پھر بولا— ’’یہ میں کر دیتا ہوں مگر… آپ کو (نشچے) [یقین] ہے بمبئی سے (شیگھر)[جلدی] ہی مدد آ جائے گی؟‘‘
(’’نشچے؟‘‘)[’’یقین؟‘‘] مقدّم نے کہا۔ ’’سولہ آنے!‘‘
انسپکٹر کی تسلّی ہوئی۔ مقدّم نے کہا —— ’’گجرات اپنا دیش ہے (ڈیسائی صحیب) [پٹیل صاحیب]… ! ہم اِسے بھوکوں نہیں مرنے دیں گے۔ ہماری اپنی حکومت ہے۔ کانگریس حکومت… ہم اِسے دنیا کی نظروں میں بدنام نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جیل کی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ ہم [اپنی] دھرتی (ماں) کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکا نہیں لگنے دیں گے۔‘‘
قومیت (تو چھوت کی بیماری سے بھی زیادہ مہلک ہوتی ہے) [کا جذبہ چھوت کی بیماری کی طرح اُڑ کر اُس کو بھی لگ گیا۔] (انسپکٹر نے) مصمّم ارادے سے [اُس نے] کہا ’’نہیں ہم ایک آدمی کو بھی بھوکا نہیں مرنے دیں گے‘‘ اور پھر اپنا منھ مقدّم کے کان کے پاس لے جا کر اُس نے کچھ کہا۔ مقدّم نے کہا۔ ’’سچ؟‘‘ اور پھر ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے۔ لیکن ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اُن ہی لرزتے ہاتھوں سے اُس نے کھاٹ کے پایے پر سے ٹوپی اُٹھا لی، دوسرے ہاتھ سے دھوتی کو سنبھالا اور کہا ’’رتنو، چلو… انسپکٹر صاحب— ایک کانسٹبل دے دیجیے جو ہمیں اُس حلوائی کے پاس لے جائے … وہ مارا… وہ مارا…‘‘
اور خوشی خوشی مقدّم اپنے چار چھے ساتھیوں اور کانسٹبل کو لے کر امبا لال حلوائی کے پاس [جا] پہنچا —— حلوائی (پورے کا پورا ریجی مینٹ) [سپاہیوں کی پوری کی پوری گارد]دیکھ کے ڈرگیا—اور بولا:
’’میرا کوئی (قصور) [دوش] نہیں —میرا کوئی قصور نہیں صاحب!‘‘
’’صاحب کے بچّے‘‘ مقدّم نے درشتی سے کہا ’’ہم جو پوچھتے ہیں وہ بتاؤ… وہ نوجوان جو ایک دو روز ہوئے مرا (ہے) ، کون تھا، کیسے آیا تھا یہاں؟‘‘
’’یہ منگل پھیرا ہے نا‘‘ امبا لال حلوائی نے اوندھی کڑھائی کو سامنے سے ہٹا کر، مقدّم کے پاس آتے ہوئے کہا ’’یہاں ایک برات آئی تھی۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’برات میں وہ چھوکرا آیا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’اُس چھوکرے کے ساتھ ایک اور چھوکرا آیا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر اُنھوں نے آپس میں شرط بدی کہ جو زیادہ جلیبیاں کھائے گا وہ دس روپئے جیتے گا۔ اُن کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی تھا جسے وہ لوگ نانو بابا کہتے تھے۔ بڑی بڑی داڑھی تھی۔ چوڑا (مستک) [ما تھا] تھا—‘‘
’’(مستک) [ماتھے] کے بچّے … آگے بتا۔‘‘
’’پھر اُنھوں نے سیر ایک جلیبیاں کھائیں۔ پھر دو سیر … اور وہ نوجوان (دس) [چھے] سیر جلیبیاں کھا گیا۔ اس کے بعد اُس (کا رنگ پیلا پڑ گیا) [کی] آنکھیں پھر گئیں— وہ چکرا کے گرا ——اُس کرسی پر۔‘‘ اور امبا لال نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ’’اور گرتے ہی اُس نے دم دے دیا۔ سانس بند ہو گیا اُس کا۔ صاحب میرا کوئی (قصور) [دوش] نہیں—‘‘
’’تمھارا نہیں (سالے) تو کس کا ہے؟‘‘ مقدّم نے کہا ’’چلو ہم تمھیں (نہ مارتے؟؟) [چھوڑے دیتے] ہیں۔ اُلٹا انعام دیں گے مگر جو کوئی پوچھنے آئے تو اُسے سچ سچ بتانا — آں؟‘‘
’’سچ بتاؤں گا، سچ بتاؤں گا، سچ بتاؤں گا… امبا لال حلوائی اِتنی بار سچ کہہ گیا کہ خواہ مخواہ جھوٹ کا شبہ ہونے لگا۔ مقدّم نے بغل بجائی اور پورا بازو گھما کر ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ کیا۔ ’’بچ گئی ہماری (موت) (عزّت) بچ گئی‘‘ اُس نے کہا ’’اب دیکھیے میں کیا کرتا ہوں، ایس ڈی اُو خوش ہو گا۔ ڈپٹی کمشنر [پھو‘لا نہیں سمائے گا] [خوش ہو گا] بمبئی کی سرکار (…؟؟) [خوش]ہو گی۔ ہماری [دلّی کی] قومی (حکومت) [سرکار] … چلو … چلو بے، کیا دیکھتے ہو (چلو چلو) —؟‘‘
اور مقدّم بھاگا بھاگا چوکی پہنچا۔ وہاں دینا کھڑی تھی۔ دینا کا باپ گووند کھڑا تھا۔ دادی کھڑی تھی۔ دادی جھکی ہوئی تھی۔ باپ کے گھٹنے آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ دینا تنی ہوئی تھی۔ اِن [سب] کے علاوہ سارگام کے دوسرے بھوکے کھڑے تھے۔ جنھیں دینا کسی طور [ساتھ] لیتی آئی تھی۔ مقدّم کو دیکھتے ہی دینا چلاّئی ’’یہ ہے وہ چنڈال… یہ ہی ہے۔ اِسے (پکڑو) [پکڑلو]، حوالدار جی… (اِسے پکڑو) [پکڑ لو اِسے] … ‘‘لیکن کانسٹبل سب کو دھکّے مار کر باہر نکالنے لگا۔ دینا بہ دستور چلاّتی جا رہی تھی ’’میں نہیں جاتی۔ میں رپٹ لکھواؤں گی——میری رپٹ لکھ لو ، حوالدار صاحب——میری ماں بھوکی مری ہے۔ گاڑی والا بھوکا مرا ہے۔ آٹھ آدمی بھوکے مرے ہیں … ہم بھی بھوکے مر جائیں گے… نکال دو … نکال دو باہر … میں بڑی سرکار کے پاس جاؤں گی۔ ہائے رام، تمھیں پوچھنے والا کوئی نہیں…‘‘
مقدّم نے کچھ بھی پروا نہ کی۔ اُس کی اپنی (حکومت) [سرکار] تھی۔ قومی (حکومت) [سرکار]… انگریزی عمل داری تھوڑے تھی کہ دوسری دنیا کے لوگ شور مچائیں۔ اپنے امن اور اپنے قانون کی حفاظت کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے تھے… (دس) [چھے] سیر جلیبیاں کھا کر مرنے والے نوجوان کی موت کی تصدیق کے لیے مقدّم مرگھٹ بھی گیا۔ اُس لڑکے کا باپ اور بھائی چوتھے کے پھول چُن رہے تھے اور [اپنی] قسمت کو (اپنی) رو رہے تھے۔ (لیکن مقدّم خوش تھا) [ایک خوش تھا تو مقدّم]… اُس کا خیال تھا، اُس نوجوان نے یوں مر کے گجرات تو کیا دیش بھر کی لاج رکھ لی تھی۔
گودھرا کے سب ڈویژن میں بڑے بڑے لوگ تھے، آزادی کے بعد چمپا نگر [؟] اپاواگڑھ، سنجیلی اور کاٹھیا واڑ تک کی ریاستوں کے رئیس بڑے بڑے افسر تک بن گئے تھے۔ احمدآباد کی مِلوں میں اُن کے حصّے تھے۔ بمبئی میں رشتے (دارییں)[داریاں] تھیں۔ مرکز کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اُنھوں نے اپنے علاقے میں شیر کا شکار کھیلا تھا۔ نوا گانو کے گرم پانی کے چشمے پر نہانے کے لیے گئے تھے… اِن سب کی عزّت رکھ لینا پریس کا [بھی] فرضِ (منصبی) تھا۔ زیادہ کھا کر مر جانے والے نوجوان کی خبر سب ڈویژن کے گزٹ میں چھپی۔ جہاں سے احمدآباد کے پریس نے نقل کی اور پھر بمبئی کے اخباروں نے اُڑا لی… قحط کی خبریں اِس طومار کے نیچے سسکتی بلکتی رہ گئیں
یہ خبر امریکا تک جا پہنچی ۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں کا علم بردار امریکا اور اُس کا جمہوری پریس اپنی ایک ساتھی قوم کو نیچا ہوتے کیوں کر دیکھ سکتا تھا۔ نیویارک کے بڑے بڑے اخباروں نے لکھا— ہندستان میں قحط کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ بھوک سے موت کی خبریں (مفسدہ پرداز) [بدمعاش] کمیونسٹوں نے اُڑائی ہیں۔ ہندستانی ہماری [ہی] طرح (طبعاً بسیار خور لوگ) [بہت کھاتے] ہیں گجرات کا علاقہ جہاں سے بھوک (کی) [سے] موتوں کی خبریں آ رہی ہیں بسیارخوری کا شکار ہے۔ لوگ بہت کھا جانے سے مر رہے ہیں… البّتہ کسی کسی جگہ (خوراک)[روٹی؟؟] کی کمی ہے(جس کے لیے مدد پہنچانے کے بارے میں) [جسے پورا کرنے کے لیے] ہماری اسٹیٹ پوری کوشش کررہی ہے۔
جب تک دینا بے نیل ِ مرام گھر جاچکی تھی۔ لیکن دینا اور دوسرے لوگ زیادہ دیر سارگام [میں] نہیں رہ سکتے تھے۔ بھوک کا کوئی سامان ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ پیٹ پالنے کی کوشش میں گانو کے بھوکوں نے درخت کی چھال (کاٹ) [نوچ] لی۔ لاکھ اُتار کے رکھ لی۔ مہوے اور ساگوان کے پیڑ کاٹ کے اُنھیں جھلوڈ اور دھیر گڑھ بازیا تک بیچ آئے… اِس پر بھی اُن کے پیٹ کا (نرک)[دوزخ] نہ بھرا۔ ایک دن دینا کی دادی چل بسی۔ گووند کی ویسے ہی بُری حالت تھی۔ کوئی راستہ (دینا) [ان لوگوں] کو نظر نہ آتا تھا۔ اس پر بھی دینا اور سارگام کے بھوکے اس دھرتی سے یوں چمٹے ہوئے تھے جیسے (دودھ پیتا) بچّہ ماں کے مر جانے کے بعد بھی اُس کی چھاتی سے الگ نہیں ہوتا… شاید وہ سب وہیں مر جاتے اگر سارگام کے بھوکوں کو جنگل کاٹنے، موم، شہد اور لاکھ کی چوری کرنے کے الزام میں جرائم پیشہ لوگ نہ قرار دیا جاتا… ایک رات بڑی پُراسرار [سی] آگ لگی۔ اور گانو کا گانو راکھ کر گئی۔ سب لوگوں کو سارگام سے چل دینا پڑا۔
سارگام کے بھوکوں کی دو پالیاں بنیں۔ ایک جمبوگھوڑا کی طرف چل دی اور دوسری گودھرا کی طرف ۔ دینا جمبو گھوڑا کی طرف نہ جانا چاہتی تھی۔ اگرچہ وہ نزدیک تھا، اِس لیے کہ وہاں روٹی نہ تھی اور — انصاف نہ تھا۔ گودھرا میں شاید اُسے کوئی کھانا دے دے اور رپٹ لکھ لے… دینا، اُس کا باپو گووند اور دوسرے دو چار (عورتیں اور مرد) [مرد اور عورتیں] گودھرا کی طرف (چلے) [چل دیے]۔
ابھی وہ بہت دور نہ گئے تھے کہ اُنھیں سفید چمڑی والا ایک آدمی ملا۔ اُس نے اپنی چمکتی (دمکتی) ہوئی کار روک لی اور اپنے ڈرائیور کی معرفت جمبو گھوڑا کا راستہ پوچھا۔ (سب مرد دیکھتے رہے۔) دینا نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔ کہا — ’’وہ ہے‘‘ اور پھر نفرت سے تھوک دیا… وہ جمبو گھوڑا کا نام تک نہ لینا چاہتی تھی!
گووند نے ایک ہاتھ کار کی طرف پھیلاتے ہوئے اور دوسرے سے پیٹ بجاتے ہوئے کہا’’ہم بھوکے ہیں بابا!…‘‘
دینا نے کار کے اندر منھ کرتے ہوئے کہا ’’تم صاحب لوگ ہو۔ دیکھو ہم سب بھوکے مر رہے ہیں، گجرات میں سیکڑوں [ہجاروں لوگ] بھوکے مر گئے—‘‘
ڈرائیور نے کہا ’’صاحب (امریکن ہے،) [امریکا سے آیا ہے…] وہ کیا کرسکتا ہے؟‘‘
گووند کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی۔ اُس نے سُن رکھا تھا۔ امریکا سے اناج آ رہا ہے۔ اُس نے ڈرائیور سے کہا۔ ’’مہتا جی ! ذرا پوچھو، (کیا) اناج (اُس وقت) [کب] آئے گا؟ [کیا اُس وقت] جب ہم سب مر جائیں گے؟… ہمیں ابھی کچھ دے دو… [نہیں] ہم مر جائیں گے… (ہم بھوکے ہیں…! ) [دیکھو ہمارا پیٹ—‘‘] صاحب نے ڈرائیور سے انگریزی میں کچھ کہا۔ ڈرائیور نے بتایا، صاحب کہہ رہا ہے— ’’کوچھ پھیکر نہیں۔ تمھارا بریڈ آئے گا۔ اُدھر سے بھیجا ہے۔ ہم اس وقت کچھ نہیں کرنے سکتا۔ ہم دیکھنے جا رہا ہے۔ جمبو گھوڑا میں سچا کوئی آدمی جیادہ کھایا اور مر گیا؟‘‘
گووند بولا ’’سب یہی جانتا ہے۔ اُدھر لوگ جیادہ کھایا اور مر گیا۔ یہ کوئی نہیں جانتا،   نہ کھایا اور کتنا آدمی مر گیا۔ ہے بھگوان ! (یہ) کیسی دنیا ہے… جب چاروں طرف سے کوئی اُمید نہ دیکھی تو گووند نے دینا کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’یہ میری لڑکی ہے، صحیب ! دیکھو (کیسی بیوٹی ہے—…‘‘) (اس کے بعد زوں ساں ساں کی ایک آواز آئی اور) [اُسی دم ایک معمولی سے جھٹکے کے ساتھ] گاڑی چل دی۔
دینا (میں اب وہ پہلی سی چمک نہ رہی تھی۔ اُس نے صرف اتنا سا کہا) [بھوک کے باوجود بھپر اُٹھی۔ بولی] ’’باپو!… (اور پھر مشکل سے بولی ’’تم میں اتنی بھی لاج نہیں رہی‘‘) [اتنا ہی پانی مر گیا ہے تمھاری آنکھوں کا]…‘‘
(جانے) گووند (ڈھینگر) کے دل میں کب سے غصّہ بھرا پڑا تھا۔ یا جانے کہاں کا غصّہ تھا اور کہاں نکال دیا اُس نے۔ بولا ’’(لاج) [پانی]کی بچّی!…اتنی ہی (لاج) [شرم] والی ہوتی تو مقدّم کے سامنے (ٹانگیں نہ پھیلا دیتی) [نہ بچھ جاتی]‘‘
’’ڈوب (مر باپو) [مرو۔] ‘‘دینا نے کہا’’[کچھ ہو تو کھا مرو؟؟] جہاں تم ایسے باپ، تم ایسے بھائی ہوں وہاں کون بیٹی، کون بہن (لاج) [شرم] بچا سکتی ہے (اپنی)۔ جب تم بھی تو تھے۔ کیوں نہ مر گئے تم شرم کے مارے (کیوں) [   ؟؟] نہ کچھ کھا لیا (تم) [تو] نے؟…‘‘
’’(تم) [تو] نے کیوں نہ کھا لیا (کچھ) ، حرام جادی‘‘ گووند نے ڈھٹائی سے کہا۔
’’حرام جادے تم ہو‘‘ (میں نہیں) دینا نے کہا اور (زور) [اپنے ہاتھ؟؟]سے گووند کو ایک دھکّا (دیا اور) [دے کر] چل دی۔ گووند میں پہلے ہی دم نہ تھا۔ منھ کے بل گرا۔ اُٹھا۔ گرا اور بلبلانے لگا۔
’’مجھے پتا تھا۔ میں جانتا تھا۔ تو یہ سب کرے گی۔ تو بھی مجھے چھوڑ جائے گی ایک دن۔ اپنی دھوتی کا گہنا بیچے گی اور کھائے گی۔ یہ سب ہونا تھا۔ سب ہونا تھا (یہ) [ایک دن]… (اور گووند اُوہو ، اُوہو، کر کے رونے لگا۔ دینا نے) کچھ دور جا کر [دینا نے] اُس کی طرف دیکھا۔ لوٹی اور پھر نفرت سے اُسے گھسیٹتی ہوئی بولی— ’’چل—چل (حرامی)… [مر۔]‘‘
گجرات کے قحط کی خبریں دب نہ سکیں۔ لوگ کہتے ہیں [جناب] شہر کے کارخانوں سے جو دھُواں اُٹھتا ہے، کوئلے کا نہیں ہوتا۔ کام گاروں کی آہوں کا [دھواں] ہوتا ہے۔ (دھُواں) (ویسے) دیہات میں سوکھے کے سمے جو دھول اُڑتی ہے، کسان کی آہ ہوتی ہے… دھُواں اور دھول آخر آسمان پر پہنچ جاتے ہیں… مجبور دینا نے اپنی رپٹ کسی آسمانی چوکی میں لکھا دی اور گرتی پڑتی گودھرا کی طرف چل دی۔
گجرات کے کال سے مارے ہوئے لوگوں کی [صحیح] خبریں (دہلی تک پہنچیں) [اب دلّی تک پہنچیں۔]امریکا سے جو گندم (پہنچی) [آئی] وہ جانوروں کے [بھی] کھانے (کے بھی) قابل نہ تھی۔ (دیش، مٹّی کے بدلے امریکا کے سامنے گرو پڑ گیا۔ بیسیوں [ ؟؟] اور بھوکے مر گئے۔ لیکن دنیا جہان میں یہی چرچا تھا، ہندستانی زیادہ کھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں… گیہوں پر ہاتھ نہ پڑا تو بمبئی کی سرکار نے جوار بھیجنا شروع (کی) [کر دی۔] پنڈت جی کے آنے سے کچھ دن پہلے لنگر لگ گئے۔ بھوکوں کو مفت کھانا بٹنے لگا۔ (لیکن جب) [اُس وقت] تک گانو برباد ہو چکے تھے، قصبے اُجڑ چکے تھے… بربادیاں آبادیوں کی طرف (لپکی جا رہی) [برابر لپکی آ رہی] تھیں۔
جب سارگام کے بھوکوں کی یہ پالی گودھرا پہنچی تو قریب قریب سب مر چکے تھے۔ چاچُو راستے میں ڈھیر ہو چکا تھا۔ کھوکھی ، چاچُو کی بہن ایک اور گروہ کے ساتھ چلی گئی تھی۔ دو بچّے پُل پر سے سوکھے نالے میں پھینک دیے گئے تھے۔ گووند میں کوئی دم نہ تھا۔ گودھرا کے ایک مل کی چمنی بہت اونچی نہ ہوتی تو گووند اور اُس کے بچے کھچے سب ساتھی مر لیے تھے… گودھرا تک پہنچتے پہنچتے گووند (بالکل جاں بہ لب ہو گیا۔)[کی جان ہونٹوں تک آ پہنچی۔] دینانے (باپو) [گووند] کو شری شکتی منڈل کے پاس ایک دیوار کی اوٹ میں بٹھا دیا اور خود (مانگنے تانگنے کے لیے چل) دوڑی۔ (کہیں) [ایک] لنگر سے روٹیاں اُٹھا لائی اور آ کر باپو کو دے دیں۔ باپو نے ایک دم ساری عمر کے لیے کھا لیا۔ کچھ دیر کے بعد اُس کے پیٹ میں ایک عجیب طرح کی کلبلاہٹ شروع ہوئی اور شام تک اسہال شروع ہو گئے۔ [اُس کی] آنکھوں کی پُتلیاں پھر گئیں۔ دینا نے دہشت سے ایک چیخ ماری اور پھر [کچھ دیر بعد] ہمّت جمع کر کے (باپو) [گووند] کا ایک بازو اپنے کاندھے پہ ڈالا اور گھسیٹتے ہوئے لے چلی۔ لنگر جاتے ہوئے اُس نے راستے میں ڈاکٹر کا ایک کیمپ دیکھا تھا——
گرتی پڑتی، باپو کو لے جا کر، دینا نے خیمے کے سامنے ڈال دیا اور (دوڑی دوڑی) [گھبرائی ہوئی] ڈاکٹر کے پاس پہنچی اور بولی۔
’’بید جی —میرا باپو مر رہا ہے، اُسے بچائیے… اُسے بچائیے، بید جی ۔‘‘
ڈاکٹر نے دینا کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دور پڑے ہوئے اُس کے باپ کی طرف ، اور بولا’’یہ اسپتال عام مریضوں کے لیے نہیں۔ اسے بڑے اسپتال لے جاؤ۔‘‘
دینا کے دل پہ چوٹ سی پڑی۔ ’’یہ کن بیماروں کے لیے؟‘‘ وہ بولی
’’اُس علاقے کے لوگوں کے لیے جو بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘
’’ہم بھی وہیں کے ہیں، وہیں کے ہیں‘‘ دینا نے بے صبری سے کہا۔
ڈاکٹر نے پوچھا ’’کیا نام ہے تمھارے گانو کا؟‘‘
’’سارگام — سارگام ‘‘ دینا نے پھر جلدی سے کہا۔
ڈاکٹر نے (پھر کوئی چوپڑی دیکھی) [کچھ کاغذ دیکھے] اور بولا ’’ایسا کوئی گانو نہیں لکھا ہے یہاں… [دیکھ لو۔‘‘] اور پھر یہ جان کر کہ لڑکی شاید پڑھی لکھی نہ ہو۔ بولا۔ ’’اِسے بڑے اسپتال میں لے جاؤ۔ ہم صرف خاص علاقے کے مریضوں کو لیتے ہیں—‘‘
ڈاکٹر پلٹا اور کسی کمپاؤنڈر کو کچھ ہدایات دینے لگا۔ دینا نہ جان پائی — وہ کیا کرے۔ وہ دوڑی دوڑی باپو کے پاس آئی (—— ’’ہائے ! میرا جنم داتا ، میرا بابل جا رہا ہے اور میں کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘ کچھ نہ سمجھنے پہ بھی) [اور بولی—باپو… باپو رے… ہائے میرا باپو… پھر اسی ؟؟] میں اُس نے گووند کا بازو گلے میں ڈالا اور اُسے اُٹھانے کی کوشش کی۔ مگر اب خود (اُس) [دینا] میں ہمّت نہ رہی تھی۔ اُس نے (باپو) [بڈھے باپ] کو وہیں چھوڑ دیا۔ اور اُس کی طرف دیکھ کر بلند آواز میں چلاّئی— ’’باپو۔‘‘اور پھر (—بس کھڑی اُس کی طرف دیکھتی رہی—) [اپنی پھٹی ہوئی دھوتی کے پلّو سے منھ ڈھانپ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی۔] پھر ایکا ایک (جانے اُسے کیا) [دینا کو کوئی] خیال آیا۔ وہ (دوڑی دوڑی) [بھاگتی ہوئی] ڈاکٹر کے پاس آئی اور بولی ’’بید جی !… ہم جمبو گھوڑا کے ہیں، جمبو گھوڑا…‘‘
’’او… ‘‘ ڈاکٹر بولا۔ ’’وہی جمبو گھوڑا جہاں ایک آدمی زیادہ کھانے سے مر گیا تھا—؟‘‘
’’ہاں — ہاں وہی‘‘ دینا نے جلدی سے کہا ’’جہاں ایک آدمی بہت کھانے سے مر گیا تھا—‘‘
’’لے آؤ۔‘‘—ڈاکٹر نے کہا۔
دینا پھر بھاگی۔ لیکن جب (تک ڈاکٹر نے گووند کا نام رجسٹر میں لکھتا، گووند اِس دنیا سے جا چکا تھا) [وہ گووند کے پاس پہنچی تو اُس نے دیکھا— اُس کا باپو مر چکا تھا — زیادہ کھا جانے سے [
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)