ناگفتہ
راجندر سنگھ بیدی
ڈوگرا حوالدار نے ٹیونک کو کانوں
تک کھینچ لیا، بندوق نیچی کی اور خالی لبادے کے بٹن کو کاج میں پھنساتے ہوئے بولا۔
’’اب تم میں سے کون بولے گا۔ آگے؟‘‘
آدھی درجن کے قریب باڑھ کی سی آوازیں آئیں— ’’ہام‘‘— یعنی ہم!
رنگ پور گانو کے جنوب کی طرف، جہاں بیس ایک کے قریب ٹوٹے ہوئے مچان کھڑے
تھے، دور تک فارم کی کپاس اپنے سفید سفید دانت نکالے منھ چڑا رہی تھی۔ وہ بھی
علاقے کی عام جوان اور بوڑھی عورتوں کی طرح تھی — بھرتی والوں سے سخت متنفّر۔ اُس
کے سبز زرد پتّوں پر کہیں کہیں بنولے ، بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت ڈھلک رہے تھے۔
رنگ پور جرنیلی سڑک پر واقع تھا۔ دور سے مسجد کے مینار اور سکھّوں کے
گوردوارے کے [کا؟] نشان صاحب ، بادلوں کی بھوری سفیدی کے خلاف زرد زرد اور لہراتا
ہوا نظر آنے لگا تھا۔ گویا گانو کے ارتقا میں عبادت گاہیں رہائش گاہوں سے پہلے
وجود میں آ گئی تھیں۔ لیکن جتھے والے خوش تھے۔ مسلمان مسجد میں سے اور سکھ
گوردوارے سے مفت لقمے اُڑا کر روزانہ بھتّا بچا سکتے تھے اور پھر ہمیشہ کی طرح
آوارہ مرغیاں بھی چُرائی جا سکتی تھیں۔ کچھ دور جانے پر رنگ پور کے واگی بھی دکھائی
دیے۔ وہ ڈھوروں کو کھیتوں میں سے ہٹا کر جرنیلی پر پھینکنا چاہتے تھے، لیکن ڈھوروں
کا ایک چوتھائی، بغلی حصّے میں اڑا ہوا تھا اور اپنی کھال میں مست جگالی کر رہا
تھا۔ اُن کے منھ سے بڑے بڑے بتاشے پانی میں گر کر پھیل رہے تھے——ہو ہو ، تیرے مریں
مالک ، ہو ہو… واگی دور سے آواز دیتے۔ پھر تہمد کو اوپر اُٹھاتے لیکن کھائی کے
ٹھنڈے پانی میں داخل ہونے کی ہمّت نہ پڑتی۔ اس پر آج پہاڑ کی طرف سے کٹار کے پھل کی
طرح تیکھی اور کاٹ دینے والی ہوا چل رہی تھی اور جتھے کے آدمیوں کو گرم کپڑوں میں
لہُو کی گراں ترین شراب کا مزہ آ رہا تھا۔
سپاہی پرومن سنگھ نے ایک میندھ پر کھڑے ہو کر پیچھے کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’کوئی اتاپتا نہیں بھرتی افسر کا۔‘‘
’’وہیں تحصیل میں مچل گیا ہو گا، بہن کا… ’’حوالدار بولا۔
حیاتے نے خرگیں میں سے ایک پھولا ہوا، دیسی سنگترہ نکالا اور اُس کا چھلکا
ہوا میں اچھالتے ہوئے بولا۔
’’دھول بھی نہیں ہے آج، وگرنہ بھرتی افسر کی کار، اور پتہ نہ
چلے۔‘‘
ایک عجیب انداز سے ککیاتے، ہمیاتے، کلکاریاں مارتے جھتے والے، رنگ پور کی
طرف بڑھے۔ رنگ پور کا نمبردار لچھّو بھی ساتھ ہی تھا۔ ضلع سے براہِ راست اس کے نام
پروانہ آیا تھا۔ ایک سو چار آدمی اُس نے پچھلی جنگ میں دیے تھے، جن کی جاں بازی
اور شہادت کا پتھّر کسی شہر کے عجائب گھر میں پڑا تھا۔ تیس پینتیس کے قریب اِس
لڑائی میں جا چکے تھے اور بہت سے نوجوان ابھی گانو ہی میں دکھائی دے رہے تھے۔
لچھّو سب کے حالات سے واقف تھا۔ مثلاً یہ کہ ماڑی والوں سے لفٹنٹی کے لیے دو پڑھے
لکھے، پلے ہوئے جوانوں کی توقّع تھی۔ اِس کے علاوہ لچھّو اور بہت سے کام کرتا تھا۔
مثلاً اُس نے بٹیر پال رکھے تھے۔ جب وہ اُن بٹیروں کو جنگ کے لیے آمادہ کرنا چاہتا
تو اُنھیں کئی کئی دن تک بھوکا رکھتا۔ اُن کی کنگنی بند کر دیتا اور خشم گیں ہو کر
ہر اپنے اور پرائے سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے۔
مدرسے کے قریب پہنچتے ہی حوالدار نے سپاہی پرومن سنگھ کو سرس کی ایک بڑی سی
چھتری کے نیچے خیمہ گاڑ دینے کا حکم دیا۔ رنگ پور کی ٹھٹھّی کے باسیوں نے نمبردار
کے ہلکے سے اشارے پر جاروب کی بجائے کندھوں پر پڑی ہوئی گاڑھے یا گمٹی کی چادروں
سے ہی زمین صاف کرنی شروع کر دی۔ سبز خون والے سفید سفید کیڑے اور بھکھڑے کے سے
چھوٹے چھوٹے کانٹے، جو کہ جابہ جا بکھرے ہوئے تھے، ایک طرف ہٹا دیے گئے۔ جب سب کچھ
ہو چکا تو بینڈ ماسٹر کی چھڑی کی طرح پتلی مگر سخت، حوالدار کی لمبی سی انگلی اُٹھی
اور ’ہام‘‘ گانے لگے۔
باہر کھڑے رنگروٹ بھرتی ہو جا اوئے
ایتھے تے پاناں ایں ٹٹیاں جتیاں
ایتھے تے پاناں ایں ٹٹیاں جتیاں
جانوروں نے رسّے تُڑائے، کوّے اُڑے، کتّے بھونکے اور کچھ دیر بعد رنگ پور
نے سب کچھ کھایا پیا اُگل دیا۔ منڈیروں پر اور نیچے ، بچّے ہی بچّے اور عورتیں ہی
عورتیں دکھائی دینے لگیں۔ کچھ عورتیں اپنے ننّھوں کو لیے سڑک کے دو رویہ جا کھڑی
ہوئیں۔ گانو کے جاٹ ہاتھوں میں درانتی یا دوسانگھے لیے اپنی کھوکھلی بے شغل، غیر
مقبوضہ نگاہوں سے حوالدار اور اُن کے شامیانے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر ایک مُبہم
جذبے کے ساتھ اُن کا خون حرکت کرنے لگا۔ بھرتی کے خیال نے اُنھیں متاثر نہیں کیا
تھا، بلکہ جہاں بھی چار آدمی جمع ہوتے، وہیں اُن کا لہو جوش مارنے لگتا اور بساکھی
کے موسمی بھنگڑے، جھُمریا لڈّی اُنھیں یاد آ جاتے۔ اور ایک ہاتھ کانوں پر رکھ،
دوسرا آسمان کی طرف اُٹھا—— او آئی وساکھی آئی۔ اور گئی وساکھی گئی، کا بے مطلب
گانا گا کر اودھم مچانے لگتے۔
جتھے والے بولے۔
ایتھے تے پاناں، ایں ٹٹیاں جتیاں
اوتھے ملن کے بوٹ بھرتی ہو جا اوئے
مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا۔ اُس کے اندر کوئی فطری سوال زبان پر آنے کے
لیے تڑپ رہا تھا۔ اُس نے جھینپی ہوئی نگاہوں سے بندوقوں کی طرف دیکھا۔ پھر اُس کا
منھ زور سے سُرخ ہوا، پھر سُرخ سے زرد اور وہ بِنا کچھ کہے واپس چلا گیا۔ اُس نے
چھوٹی سی خودکشی کر لی… اور جتھے کے بڑے بڑے وزنی بوٹوں کا سیاہ پالش دمک رہا تھا۔
مولا سنگھ اور جہورا (ظہوردین) ایسے زاویے پر کھڑے تھے کہ سورج کی شعاعیں پالش کے
آئینوں میں سے منعکس ہو کر اُن کی آنکھوں میں پہنچ رہی تھیں۔اگرچہ سورج تھوڑی دیر
کے بعد پھر بادلوں کے پیچھے چھُپ جاتا۔ ظہورے نے یوں ہی اپنے گامے شاہی جوتوں کی
طرف دیکھا۔ وہ کبھی کے پُرانے ہو چکے تھے۔ اور پھر آج لوبیا کے کھیت میں سے باہر
آئے تھے اور اُن پر اب مٹّی کا بے دمک پالش اپنی کُند شعاعیں جہورے کے ذہن میں
منعکس کرتے ہوئے اُسے ناقابلِ عبور افریقی دلدل بنا رہا تھا۔ ہجوم کے وسط میں کنویں
کی جگت کے سہارے اچار جن رِخو بھی اپنے بچّے کو لیے کھڑی تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں
اپنے اچارج کو وہ سیاہ بوٹ بھی پہنا دیے، اگرچہ وہ اپنی کمر میں اُن کی ایک بھی
ٹھوکر برداشت نہ کرسکی۔ اِن سب باتوں کے ہوتے ہوئے بوٹوں سے کوئی منکر نہیں تھا
اور جتھے والوں نے جاری رکھا۔
ایتھے تے پاناں، ایں دگدیاں لیراں
اوتھے ملن کے سوٹ بھرتی ہو جا اوئے
ایتھے تے پاناں، ایں گاجر مو‘لی
اوتھے ملن کے فروٹ بھرتی ہو جا اوئے
آسمان پر بادل لپٹ گئے تھے اور سورج ہوا کی کٹاری کو کُند کر رہا تھا۔دیہاتی
اپنے نیم برہنہ جسموں کو ڈھانپتے ہوئے جتھے والوں کے کپڑوں اور ان کی خرگینوں میں
کھانے پینے کے سامان کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک مُبہم سی خواب آلودہ رال کے
گھونٹ بھر رہے تھے۔ پہاڑ کی طرف سے دھول کی ایک کہر سی اُٹھی اور آناً فاناً میں
رنگ پور کے آسمان پر چھانے لگی۔ مجمع کے چند آدمیوں نے اوپر کی طرف نگاہ کی ،لیکن
کچھ نہ سمجھتے ہوئے پھر حوالدار کی ٹیونک اور سپاہیوں کی برانڈیوں کی طرف دیکھنے
لگے۔ گانو کا واحد سفیدا ایک ننّھے سے شیشم کے ساتھ سرگوشی کے لیے جھُکا ۔ سپاہی
پرومن سنگھ نے حیاتے سے کہا ’’بھرتی افسر آ رہا ہے شاید‘‘——اور حیاتے نے پرومن
سنگھ کی بات کو پوری طرح نہ سنتے ہوئے بھی سر ہلا دیا اور رہٹ کی سی بھدّی آواز میں
گانے لگا۔
ایتھے تے مِلدا ای دا تری رنبا
اوتھے ملے گی بندوق بھرتی ہو جا اوئے
اس سے پہلے شاید دیہاتیوں کو پیٹ اور جسمانی سُکھ کا ہی خیال تھا۔ اب بندوق
نے ان کے ذہن میں ایک سنجیدگی اور نصرت کی دنیا پیدا کر دی تھی۔ بنتا سنگھ نے اِس
شش ماہی میں چار دفعہ موگے کا منھ بند کر دیا تھا۔ اور مولا سنگھ اُسے جان سے
مارسکتا تھا۔ جہورا اپنی بیوی کے عاشق سے بدلہ لے سکتا تھا۔ بچپن میں کوّوں کے
گھونسلے گرانے، بیر بہوٹیوں کا تیل نکالنے اور مکوڑوں کا اچار ڈالنے کا جذبہ اِس
عمر میں اپنے ہم جنسوں کو مار ڈالنے کے جنون تک پہنچ گیا تھا۔
کچھ دیر گلا پھاڑنے کے بعد سب ٹھنڈے ہو گئے۔ حوالدار نے لچھّو کو کچھ بولنے
کا اشارہ کیا۔ اب لچھّو بھلا کہاں کا مُقرّر تھا۔ اُس نے اناپ شناپ کہی۔ دراصل اُس
نے بھرتی گیت کے مفہوم کو دُہرایا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ وہاں دنیا کی
ہر نعمت میسّر آتی ہے۔ لیکن لچھّو کوئی بہت احمق نہیں تھا جو محض اِن باتوں کو
دُہرا دینے پر اکتفا کرتا۔ اس نے مدرسے کا احاطہ کرنے والی تھوہڑ کے قریب کھڑی بڑھیا
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا— ’’اور پوچھو جیو نے کی بے بے سے، کیا اِسے ہر مہینے
دس روپئے کا نیلا منی آرڈر نہیں آتا؟‘‘ جیونے کی ماں کے دل میں ایک اُبال سا
اُٹھا۔ اس نے زور سے کچھ کہنا چاہا لیکن صرف —— ’’اغ …اغ…‘‘ کہہ کر اپنا گلا ملنے
لگی۔ اُس کے گلے میں بلغم پھنس گیا تھا…
عورتوں اور مردوں کے ذہن میں روپوں کی سفیدی اور منی آرڈر کی نیلاہٹ خلط
ملط ہونے لگی۔ ان کے کانوں میں بھرتی کے گیت اور ’’اغ ، اغ‘‘ گتھّم گتھّا ہونے
لگے۔ آسمان کی آندھی اور زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کھڑپ کھڑپ، کھڑپ کھڑپ کی
سی آوازیں آنے لگیں، جیسے بہت سے پانو ایک ساتھ اُٹھ کر زمین پر پڑ رہے ہوں۔ سپاہی
حیاتے نے کنویں کی جگت پر چڑھ کر مغرب کی طرف دیکھا۔ جرنیلی سڑک پر دور تک کچھ نظر
نہ آتا تھا۔ بھرتی افسر کی موٹر ہوتی تو کبھی کی رنگ پور پہنچ جاتی۔ دور سڑک پر ایک
نقطہ سا تھا جو کہ بسیط ہو رہا تھا۔
ڈوگرا حوالدار نے رجسٹر کھولا اور ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اندراج کے لیے بیٹھ
گیا۔ لیکن دور سے باجے کی آواز نے لوگوں کو اپنی طرف متوجّہ کر لیا۔ جرنیلی پر
پچھم کا نقطہ اچھا خاصا مستطیل ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد لوگوں کو سامنے کے چار آدمی
دکھائی دیے۔ اُن کے پیچھے کچھ اور آدمی تھے۔ پندرہ بیس منٹ میں ایک پلٹن کی پلٹن
نظر آنے لگی۔ اور سب لوگ کھڑے ہو کر اُس کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
لیفٹ رائٹ لیفٹ… لیفٹ رائٹ لیفٹ… کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک ہلکی سی دھول رنگ
پور پر چھا چکی تھی۔ سپاہی گانو والوں کی طرف دیکھتے ہوئے جرنیلی پر سے گزرنے لگے۔
اُس کے بعد خچرّ اور چھوٹی چھوٹی گاڑیاں آئیں۔ درمیان میں کہیں ایک بڑا سا اُستر،
ایک بڑے وزنی چھکڑے کو کھینچ رہا تھا۔ اُن گاڑیوں اور چھکڑوں میں شاید راشن تھا۔
چھکڑے کے پیچھے دو اڑھائی فرلانگ تک اور سپاہی تھے جن کے پانو عین ایک ساتھ اُٹھتے
تھے۔ اُن کی چھاتیوں پر تمغے اور کندھوں پر نشان تھے۔ کہیں دھات کے بنے ہوئے ستارے
اور تاج تھے… لیفٹ رائٹ لیفٹ… فوج چلتی گئی۔ نہ صرف قدم بلکہ سپاہیوں کے بازو بھی
ایک ہی ساتھ اُٹھ رہے تھے۔ سورج نکلنے پر ہوا اور بھی خشم گیں ہو گئی تھی۔ جوہڑوں
کا کف اُن کے کناروں پر اکٹھا ہو رہا تھا۔ لیکن انسان کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو
کوئی آندھی، جھکّڑ یا بگولا روکنے کا اہل نہیں تھا۔ پلٹن کے آدمی کسی دور علاقے کے
دکھائی دیتے تھے۔ ان کا رنگ سیاہ تھا اور قد ٹھگنا۔ [وہ] دکن میں کہیں بھرتی ہوئے
تھے۔ عراق میں دو برس رکھ کر اُنھیں پنجاب میں تبدیل کیا گیا تھا۔ اور اب اُنھیں
کبھی پشاور، کبھی سیال کوٹ، کبھی لاہور یا جہلم بھیج دیا جاتا اور وہ ہمیشہ کبھی
گاڑی میں اور کبھی پیدل کسی نامعلوم جگہ کی طرف پا بہ سفر رہتے۔
پلٹن کا آخری حصّہ رنگ پور سے گزر رہا تھا۔ آخری چند قطاروں میں سے ایک
سپاہی نے اپنے ساتھی کے ساتھ سرگوشی کی اور اپنے جمعدار کی نگاہ سے بچتے ہوئے باہر
نکل آیا۔ وہ دُبلا پتلا، بکھنڈی[شکھنڈی؟] سا آدمی تھا۔ اُس کے جسم کے کنگرے منہدم
ہو رہے تھے۔ اُس کی بینائی کمزور تھی۔ چہرے پر موسم کے اثرات شدّت سے نمایاں تھے۔
عمر کے لحاظ سے نہ وہ جوان تھا اور نہ بوڑھا۔ قطار سے باہر نکل کر اُس نے اپنی
چندھی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپا اور کنویں کی منڈیر کی طرف دیکھا ،جہاں
اچارجن رِخو اپنا بچّہ لیے کھڑی تھی۔ رِخو کے قریب پہنچ کر سپاہی بولا:
’’امّا! کیا تم مجھے اپنا للّا دے سکو گی؟‘‘
رِخو گھبرائی، اُس نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔
’’صرف ایک منٹ کے لیے امّا!‘‘سپاہی نے گڑ گڑا کر کہا ’’صرف ایک
پل کے لیے۔‘‘
عورت نے کنور مچھلی کی طرح نرم اور گداز بچّہ سپاہی کے کانپتے ہوئے ہاتھوں
میں دے دیا۔ سپاہی نے ایک پل کے لیے بچّے کو اچھّی طرح سے گھورا۔ اُس کی معتدل
حرارت کو محسوس کیا۔ اُسے بے تحاشا چوما، چھاتی سے بھینچا، رویا اور گرتا پڑتا
سپاہیوں میں شامل ہونے کے لیے دوڑنے لگا۔
(’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور۔ اپریل 1942)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment