مئے
شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیل
سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصور
میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرار
دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے
دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تری
آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنام
ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں
سنو!
اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
یہ
وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا
نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری
یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں
سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ
جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
یقیناً
حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم
ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
No comments:
Post a Comment