انداز ہو بہو تری
آواز_پا کی تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو
جھونکا ہوا کا تھا
احمد ندیم قاسمی
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے
بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں
سارا کلام رکھ دیا
احمد فراز
کل ہی جن کو تری پلکوں
پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے میری
چھت پر نکلے
احمد مشتاق
پتا بھی کھڑکتا ہے تو ہم
شب زدگاں کو
لگتا ہے کہ جھونکا ہے نسیم_سحری
کا
آرزو لکھنوی
میں دیکھتا ہوں ہر اک
سمت پنچھیوں کے ہجوم
الہی خیر ہو صیاد کے
گھرانے کی
ازہر درانی
تمہی کوئی شجر_سایہ دار
ڈھونڈ رکھو
کہ وہ تو اپنے لیے بھی
ہے اجنبی کی طرح
اسرار زیدی
کون سا موڑ ہے ، کیوں
پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں ،
کوئی پکارا بھی نہیں
اسلم انصاری
لوگوں نے جس وقت ستارے
بانٹ لیے
اسلم اک جگنو کے پیچھے
بھاگا تھا
اسلم کولسری
ممبر پہ آ کے اس لیے
خطبے نہیں دیے
جو بے خبر ہیں ان کو خبر
کس لیے کریں
اطہر ناسک
کوہساروں کا فیض ہے ورنہ
کون دیتا ہے دوسری آواز
اظہار شاہین
آنکھ پہ ہاتھ دھرے پھرتے
تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اس کی باتیں چھیڑ کے ہم
کو لہجے سے پہچان لیا
اعتبار ساجد
میں پنچھی تھا فضا میں
اڑنے والا
ترے کمرے کا کونا کیا
کروں میں
اعجاز احمد اعجاز
پھر آئے گا وہ مجھ سے
بچھڑنے کے واسطے
بچپن کا دور پھر سے جوانی
میں آئے گا
اقبال ساجد
ملے تو مل لیے ، بچھڑے
تو یاد بھی نہ رہے
تعلقات میں ایسی رواروی
بھی نہ ہو
افتخار عارف
گزر رہا ہے جو لمحہ اسے
امر کر لیں
میں اپنے خون سے لکھتا
ہوں تم گواہی دو
امجد اسلام امجد
یہ رات اور روایات کی یہ
زنجیریں
گلی کے موڑ سے دو لوٹتے
ہوئے سائے
امین راحت چغتائی
ہر چند انہیں عہد ،
فراموش نہ ہو گا
لیکن ہمیں اس وقت کوئی
ہوش نہ ہو گا
انجم رومانی
مرے مزار پہ آ کر دیے
جلائے گا
وہ میرے بعد مری زندگی میں
آئے گا
انجم خیالی
سب کھیلتے ہیں آنکھ مچولی
یہاں مگر
میں چھپ گیا ہوں کوئی
مجھے ڈھونڈتا نہیں
اجمل نیازی
صرف اس کے ہونٹ کاغز پر
بنا دیتا ہو میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں
پر ہنسی اپنی جگہ
انور شعور
رات لغات_عمر سے میں نے
چنا تھا ایک لفظ
لفظ بہت عجیب تھا ، یاد
نہیں رہا مجھے
اختر شمار
جمع کرنا تہ_مژگاں تجھے
قطرہ قطرہ
رات بھر پھر تجھے ٹکڑوں
میں روایت کرنا
ایوب خاور
کل رات میں تنہائی میں
دل کھول کے رویا
پھر یوں ہوا دیوار سے
بازو نکل آئے
اشرف یوسفی
اس نے بھی میری سوچ میں
حسن کے رنگ بھر دیے
میں نے بھی اس کو سوچ کر
حسن_خیال کر دیا
ارشاد جالندھری
یہ بات قریہ_خوش فہم کے
مکیں سن لیں
لحاظ بھول کے چلتی ہے
خود شناس ہوا
اختر عثمان
دکان جب سے سجائی ہے یہ
کھلونوں کی
چرا رہا ہوں نگاہیں یتیم
بچوں سے
اقبال طارق
کھلا تھا لفظ بھی جادو
مثال ہوتے ہیں
وہ جب گلاب ہوا تھا،
گلاب کہنے سے
اقبال خاور
میں خواب_ہجر سے جاگا تو
ڈھونڈ لوں گا تجھے
تو اس نواح میں ہو گا ،
مگر کہاں ہو گا
ابرار احمد
اپنی باری کے انتظار میں
تھے
تیری الماری میں لباس
ترے
افضال نوید
تمہارے جیسا نہیں ہے کوئی
زمانے میں
یہ بات میں نے کسی اور
سے نہیں کی ہے
احمد رضوان
پر پیچ راستوں کی ازیت
بجا مگر
سچ پوچھیے تو اپنا گزارہ
سفر میں ہے
ارشد شاہین
کبھی تو مل کے بتاؤ کہ ایسے
ملتے ہیں
مجھے پتہ ہے تمہیں چھوڑ
جانا آتا ہے
ادریس بابر
نہ اب وہ دھاگا بچا ہے
نہ انگلیاں اس کی
وہ اک بٹن بھی مری آستیں
سے ٹوٹ گیا
اسد زیدی
خدائے خاک تو باقی زمیں
کا کچھ بھی کر
جہاں درخت لگے ہیں وہاں
سلامتی ہو
احمد کامران
ایک دستک پہ وہ دروازہ
نہیں کھولے گا
اس کو معلوم جو ہے میں
نے کھڑے رہنا ہے
احمد سلیم
یہ نہیں دیھکتے کتنی ہے
ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں
آسانی کو
اظہر فراغ
قبروں میں نہیں ہم کو
کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں
مرے ہیں
اعجاز توکل
روح سنتی ہے محبت میں ،
بدن بولتے ہیں
لفظ پیرایہ_اظہار نہیں
ہوتا یار
افتخار مغل
ایک بے برگ شجر دھند میں
لپٹا ہوا تھا
شاخ پر بیٹھی دعاؤں کی
ضرورت تھی مجھے
احمد عطاء
کبھی کتاب بھی لا دوں گا
اپنے بچوں کو
میں اس امید پہ بستہ خرید
لایا ہوں
امین شیخ
وہ دلہن بن کے رخصت ہو
گئی ہے
میں اس کے خط میں لکھا
رہ گیا ہوں
افتخار حیدر
میں اپنے آپ میں گم تھا
مجھے خبر نہ ہوئی
گزر رہی تھی مجھے روندتی
ہوئی دنیا
۔۔۔۔۔
بشر مقیم تھے قبروں میں
، اور نئے مردے
سمندروں میں بہائے گئے
زمیں کم تھی
آمداد آکاش
گناہ گار ہوں دہلیز پر
بٹھا دیجیئے
مگر حضور مری حاضری لگا
دیجیئے
احمد حسین مجاہد
باغباں کی نیند اڑنے کا
زمانہ آ چکا
رنگ سیبوں کا ترے رخسار
جیسا ہو گیا
احمد خیال
جس احمد سے تجھ کو شکوے
رہتے تھے
اس کو میں نے چھوڑ دیا
ہے ، اور بتا
احمد حماد
ایک بے چہرہ مسافت ہے
مرے رستے میں
ایک مدت سے مجھے جس نے
پکارا ہوا ہے
امجد شہزاد
باغ کی ویرانی کا عینی
شاہد ہوں
تنہائی کے بوجھ سے جھولا
ٹوٹ گیا
الیاس بابر اعوان
آنسو روانہ ہو گئے آہوں
کے دوش پر
تجھ کو چراغ بھیج رہا
ہوں ہوا کے ساتھ
احمد شہر یار
میرے اعصاب بھی واقف نہیں
مجھ سے ، یعنی
میرے اندر بھی مرا نام زیادہ
نہیں ہے
ابھیشک شکلا
مرے تعاقب میں نا مرادی
کا جن لگا ہے
ہزار سالوں سے گھر پڑا
ہوں ، بہت برا ہوں
افتخار فلک
کھایا گیا ہے بانٹ کے کس
اہتمام سے
جیسے مرا وطن کوئی چوری
کا مال تھا
احمد ادریس
اپنی طرف بھی دیکھ اگر دیکھتا
ہے تو
سورج مکھی کے پھول کدھر
دیکھتا ہے تو
اکبر معصوم
میں زیاں کار سہی پھر بھی
مری جھولی میں
عشق ہے اور فسانے کے لیے
کافی ہے
احسن مرزا
مجھے عادت ہے میں تنہا
کبھی بھی رہ نہیں سکتا
مری عادت بدلنے تک تو میرے
ساتھ رہ جاؤ
اختر منیر
No comments:
Post a Comment