پہاڑی کوّا
راجندر سنگھ بیدی
مجھے وہ دن یاد ہے۔ جلسے کا وہ
منظر آج بھی میرے سامنے ہے، کیوں کہ وہ میری زندگی سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ آج
تک مجھ پہ اُس کی چھاپ ہے… اور وہ تیسری اور سب سے بڑی وجہ بن گیا تھا میرے پہاڑی
کوّا بن جانے کی۔
موری دروازے اور اُس پلاٹ کے درمیان جہاں جلسہ ہونے والا تھا، ایک چھوٹی سی
نہر تھی۔ ایک طرف پہلوان امام بخش اور حمیدے کا اکھاڑا تھا۔ اکھاڑا چاروں طرف بڑ
کے بڑے بڑے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ نہر کے کنارے شیشم، پھلا ہی اور املی کے پیڑ
تھے، جو نیچے پلاٹ پر جھانکا کرتے تھے۔ پھلاہی پر سوکھی پھلیاں لٹک رہی تھیں۔ پت
جھڑ شروع ہو چکی تھی۔ املی کے چھوٹے چھوٹے اور خشک پتّے لرزتے کانپتے ہوئے گر رہے
تھے اور نیچے کھڑے ہوئے لوگوں پر یوں پڑ رہے تھے جیسے ہماری گھٹیا تصویروں میں شہیدوں
پر آسمان سے پھول برستے دکھائی دیتے ہیں۔
کچھ لوگ پہنچ چکے تھے اور کچھ آ رہے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کر
کھڑے تھے۔سب کے چہروں پر تناؤ تھا۔ نگاہوں سے نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ اور
شام کے ہر لحظہ بڑھتے ہوئے اندھیرے میں پلاٹ کی گہری سبز گھاس سیاہ دکھائی دے رہی
تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا ایک کالی چادر بچھی ہے اور پھر چھدرے چھدرے کھڑے لوگ ایک
ٹکڑی سے دوسری ٹکڑی میں آتے جاتے، سیاہ نظر آتی ہوئی گھاس کے پس منظر میں، یوں نظر
آ رہے تھے ، جیسے جلتے توے پر چنگاریاں ناچتی ہیں۔
ایسے جلسوں کے لیے موری دروازے کے باہر کا میدان بہترین جگہ تھی۔ موری اور
شاہ عالمی سے ہندو اور بھائی ٹکسالی دروازے تک سے مسلمان چلے آتے اور درمیان میں
مل جاتے۔ کیوں کہ یہی ایک سیاسی پلیٹ فارم تھا جہاں یہ مل سکتے تھے۔ اِسی سال میں
ہندو مسلم فساد ہو کے ہٹا تھا، مگر یوں معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اب تھک ہار گئے ہیں
اور آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ محبت اور پیار سے رہنا چاہتے ہیں۔ اکھاڑے کے جھاڑوں
کے سامنے ترنگا لہرا رہا تھا، اپنے پہلو میں چرخے کو لیے، اور جب وہ لہراتا تھا تو
یوں معلوم ہوتا تھا چرخا چل رہا ہے۔
ڈایس پر ایک معمولی سی میز اور اس پر گاڑھے کی ایک سودیشی چادر بچھی تھی۔
اُس پر سوت کی انٹیاں رکھی تھیں۔ سودیشی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے، لوگوں کو
دکھانے کے لیے کہ آج کمبوواڑے، پیپل دیٹہرے ، سیّد مٹھا اور منشی نہال چند لاہوری
کی حویلی کی عورتوں نے مل کر ایک ہی دن میں ڈیڑھ من سوت کات ڈالا ہے۔ چرخا سَنگھ
کا مقامی صدر کسی بی بی ہرنام کور کو انعام بھی دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ دکھانے کا ایک
اور بھی مقصد تھا کہ اِس جدّ و جہد میں عورتیں بھی ساتھ ہیں، تاکہ اور عورتیں ساتھ
آئیں۔ دس آدمی کسی تحریک میں آتے ہیں تو مشکل سے ایک عورت کو لاپاتے ہیں۔ لیکن اگر
ایک عورت آتی ہے تو اُس کے ساتھ سارا کنبہ چلا آتا ہے… تو باہر ڈایس پر سوٹ کی انٹیوں
کے پیچھے ترنگے کے نیچے والنٹیروں نے گانا شروع کر دیا تھا ——سرفروشی کی تمنّا اب
ہمارے دل میں ہے!
ایک نہایت گاڑھے دھُویں کی طرح گانے کی آواز اُٹھی اور مجمع پر چھا گئی۔ وہ
لوگ جو گولندازوں کی مانند موہوم توپوں کے پیچھے کھڑے تھے ،اِس گانے کو گولا باری
کا ایک آرڈر سمجھ کر اپنی اپنی پوسٹ پر آ گئے۔ اپنے آپ اُنھوں نے ایک شیرازہ بندی
کر لی۔ دائیں طرف عورتوں کے لیے جگہ چھوڑ کر، سامنے اور بائیں طرف بیٹھ گئے۔ باقی
کے اُن کے پیچھے اُنھیں گھیرے میں لیے کھڑے رہے۔ درمیان میں کچھ خالی جگہ پڑی تھی
اور وہاں لکڑیوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔لوگ ابھی نہیں جانتے تھے اُن لکڑیوں کا کیا
مصرف ہے۔ گانے کی آواز پھر آئی…دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے… اور اچھی
خاصی خلقت جمع ہو گئی۔ سامنے سرکلر روڈ کے مکانوں کی چھتوں پر بھی عورتیں اور مرد
دکھائی دینے لگے۔ کچھ لوگ درختوں پر چڑھ کر بیٹھے تھے اور نیچے سے یوں نظر آ رہے
تھے جیسے آڑو لگے ہیں۔
پیچھے، سب سے پیچھے، فرنگی سے تنخواہ لینے والی پولس کھڑی تھی اور مونچھوں
پر تاو دے رہی تھی۔ اُس پر بھی نوجوان سرفروشی کی باتیں کر رہے تھے۔ یہی نہیں کبھی
کبھی فرصت پاکر وہ انقلاب کا نعرہ بھی لگا دیتے تھے۔ اور مجمعے کے درمیان بلا وردی
خفیہ پولس کا سپاہی اپنی ڈائری میں لکھ لیتا۔ انقلاب کا نعرہ تین بار۔
لوگ باتیں کر رہے تھے۔ سائمن کمیشن کی باتیں۔ لاجپت راے کی باتیں… میونے
والی مدراس کانگریس کی باتیں۔ گاندھی جی کا مضمون … کیا کانگریس کے ہونے والے جنرل
سکریٹری سبھاش اور نہرو مکمل آزادی کا پرستاؤ پیش بھی کرسکیں گے؟ بھئی ہم تو کہتے
ہیں گاندھی کی مانو، وہی لنگوٹی والا بابا جانتا ہے ملک کی اِس وقت کیا دِشا ہے؟…
لوگ زیادہ مانگیں، جب بھی اتنا ملے گا۔
جتنے منھ اُتنی ہی باتیں۔ جتنے منھ اُن سے زیادہ باتیں… باتیں… باتیں اور
باتیں… اور پھر خاموشی——پردھان سنہر بابو آ گئے تھے۔ جلسہ شروع ہوا۔ لوگوں نے ڈر
کے مارے بڑی جوشیلی تقریریں کیں۔ ایک نے کہا۔ ہم ایک بھی انگریز کو زندہ نہیں چھوڑیں
گے۔ بلا وردی سپاہی نے حیرت سے اُس آدمی کی طرف دیکھا جو آگ اور شعلوں سے کھیل رہا
تھا۔ لیکن ابھی اُس نے اپنی ڈائری میں کچھ بھی نہ لکھا تھا کہ مقرر اور پردھان
دونوں چوکنّے ہو گئے۔ تقریر کرنے والے نے اُسی فقرے کو بڑی صفائی کے ساتھ معتدل کر
دیا۔ ’’اِس کا مطلب یہ نہیں‘‘ اُس نے کہا ’’ہم اِ ن کو مار ڈالیں گے… ہم اِن کے
ملک سے آنے والے مال کا بائی کاٹ کریں گے۔ کیوں کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے انگریز
کا یہاں زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا… پردھان سنہر بابو نے تسکین کا سانس لیا اور بڑی
بے پروائی سے اوپر دیکھا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ خفیہ پولس کے سپاہی نے بیزاری کا
اظہار کرتے ہوئے ڈائری میں کچھ گھسیٹ ڈالا۔ لوگوں کے رونگٹے، جو پہلا فقرہ سننے کے
بعد کھڑے ہو گئے تھے، بیٹھ گئے… لیکن ایک بار ہمیں پھر سنسنی کا احساس ہوا۔ جب
چائے کمپنی کے سامنے بے کاروں پر لاٹھی چارج کی قرارداد ہمارے سامنے آئی۔ یوں
معلوم ہوا ساراملک اور ساری قوم ہم سے ہمدردی کر رہی ہے۔ جب ہی پتا چلا اِکّیس آدمی
زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔ دو میؤ اسپتال میں پڑے ہیں اور ایک
گھر میں موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے۔ ہم نے سوچا، ہم بھی اُن اِکّیس آدمیوں
میں سے ہو سکتے تھے۔ اُن تینوں میں سے ہو سکتے تھے… وہ ایک ہو سکتے تھے جو … شاید
… لیکن اُس وقت پردھان سنہر بابو بولنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اُنھوں نے انگریزی
راج کی مخالفت کی۔ سودیشی کا پرچار کیا ——اِن سوت کی انٹیوں سے گولے بنائے جائیں
گے، اُن گولوں سے گورے اُڑائے جائیں گے—
لوگوں پر اثر پڑا۔ گولوں کا تذکرہ تو تھا۔ چاہے وہ سوت ہی کے گولے تھے۔ سوت
میں وہ طاقت ہے جو بارود میں نہیں۔ نرہری ہنسا ۔ مجھے بڑا تاؤ آیا۔ میں نے کہا تو
کیوں ہنستا ہے؟
اُس نے کہا، ہنستا اِس لیے ہوں کہ رو نہیں سکتا۔
کیا مطلب؟
کیا بتاؤں یار، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ سوت کے گولوں سے انگریز
کو کیسے بھگا دیں گے؟ میں نے کہا تو مہاتما گاندھی سے بھی زیادہ جانتا ہے۔ اِس پر
نرہری چُپ ہو رہا۔
مجمع میں غم و غصّے کی ایک لہر پھیل گئی۔ ایک جذبہ پیدا ہو گیا۔ میں نے
اپنے آپ کو ڈایس کے قریب پایا۔ میں بلند آواز سے پردھان کو کہہ رہا تھا، مجھے بھی
بولنے دیجیے… اور دوسرے ہی لمحے میں اسٹیج پر تھا… میں تقریر کر رہا تھا… الفاظ
جانے کہاں سے اُمڈے چلے آ رہے تھے۔ شاید یہ اُن لاٹھیوں کا اثر تھا، جو چاروں طرف
ہوا میں برس رہی تھیں… یا وہ روٹیاں تھیں جو ہماری گرفت میں نہیں آ رہی تھیں…
دوستو! میں نے کہا۔ اب سرفروشی کے دن آ گئے۔ اب پیچھے ہٹنا کام نہیں مردوں کا۔ دیش
بھر میں آگ لگی ہے۔ کیا آپ اِسے جلتا دیکھ کر ایک طرف ہو بیٹھیں گے؟ آپ سے تو پنچھی
اچھّے ہیں۔ دو پنچھی ایک پیڑ پر رہتے تھے۔ کہیں اُس پیڑ کو آگ لگ گئی تو وہ وہیں بیٹھے
رہے۔ کسی نے کہا —— اے پنچھیو تم اُڑ کیوں نہیں جاتے؟ تو اُنھوں نے جواب دیا ——
پھل کھائے اِس بِرکش کے، گندے کیتے پات۔ اب تو ہمارا دھرم ہے جل مریں اِس ساتھ۔
اِس کے بعد تالیاں اور شور۔ اور نعرے… اور جب میں نے لوگوں کو بتایا، میں
بھی بے کاروں کے اُس مجمعے میں تھا جس پر
لاٹھیاں پڑی تھیں، تو لوگوں نے چلاّنا شروع کیا ۔ سرب دیال زندہ باد ! میرا نام
پوچھا جا رہا تھا۔ کانوں میں بتایا جا رہا تھا اور پھر پکارا جا رہا تھا۔ لوگ کہہ
رہے تھے، اِسے لاٹھی نہیں پڑی۔ دولت رام نے کہا۔ پڑی ہے … والنٹیر سوچ رہے تھے ،
کاش اِسے ایک پڑی ہوتی، جو سامنے دکھائی دیتی پھر دیکھتے لوگوں کا جوش —
ایک طرف سے آگ لپکی ۔ درمیان میں دیودار کی جو لکڑیاں اور چیلیاں پڑی تھیں،
دھڑادھڑ جلنے لگیں اور لوگ اپنے بدیشی کپڑے اُتار اُتار کر اُن میں پھینکنے لگے۔ ایک
آدمی نے مِل کا بُنا ہوا کُرتا اُتار کر کمر میں باندھا اور بدیشی ملک کے پاجامے
کو ڈایس پر پھینک دیا۔ سنہر بابو نے ایک بازو سے اُسے پکڑ لیا اور بولے۔
اِزار بند تو نکال لو ظالم—سودیشی ہے۔
جلنے دو اِسے بھی… یہ بھی اس کے ساتھ رہا ہے۔ اُس آدمی نے کہا۔
بھیڑ میں سے کسی نے اُس آدمی کو بھی آگ کی طرف دھکیل دیا۔ تو بھی جا سالے!
تو بھی تو یہ پہنتا رہا ہے… پھر اُس آدمی کا پیچھے مُڑ کر دیکھنا… اندھیرے میں جیسے
دو بلّے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہوں اور غراّ رہے ہوں۔ پھر دھکم پیل ۔ بیچ
بچاو… گالیاں… شاباش… ہنسی گلہریوں کی سی ہنسی۔ سرِ راہ گھٹیا ٹائر پھٹ جانے کی
طرح ہنسی… قہقہے… جو سب بندے ماترم کے نعروں میں ڈوب گئے۔ لوگ اس وقت کی تو کیا،
جدِّ امجد کے وقت کی مخالفتیں بھول گئے۔ میرے سینے میں کوئی عزم کھول رہا تھا۔ آج
صبح ہی سے اِس پاگل دل میں کوئی تخمیر ہو رہی تھی اور جو چیز دماغ تک آئی، وہ سہ
آتشہ تھی۔ چہار آتشہ … میں نے کہا بھائیو! میں آج خدا اور گاندھی کو حاضر جان کر
عہد کرتا ہوں، جب تک میرا ملک آزاد نہ ہو گا میں کالے کپڑے پہنوں گا——
بس پھر کیا تھا ۔ لوگوں نے مجھے لپک لیا۔ مجھ سے ہاتھ ملانے لگے۔ میرے کوٹ
کا دامن چومنے لگے اور پھر مجھے اُٹھا کر کندھوں پر اُچھالنے لگے۔ میں نے دیکھا۔ میں
لیڈر بن گیا تھا۔
گھر پہنچا تو دولت نے کہا — دیکھا؟
میں نے سوچا اور کہا — ارے ہاں!… گویا یہ بیج دولت رام ہی نے بویا تھا۔ اِسی
نے یہ شوشہ چھیڑ دیا تھا کہ اپنا نام پہاڑی کوّا رکھ لے۔ لیڈر بن جائے گا۔ میں نے
صرف اپنا نام ہی نہ بدلا، لمبا کالا کوٹ ، کالا پائجامہ، کالی قمیص اور کالی ٹوپی
پہنی۔ میں سچ مچ کا پہاڑی کوّا بن گیا۔
اور وہ کالے کپڑے مجھے بے حد پسند تھے۔ اُن سے میں نے ایک امتیازی شان حاصل
کر لی تھی۔ جب میں اپنے لمبے کالے کوٹ کو پہاڑی کوّے کے پروں کی طرح پھڑپھڑاتا ہوا
گلیوں اور بازاروں سے گزرتا ، تو لوگ عقیدت کے ایک جذبے کے ساتھ میری طرف دیکھتے
اور میں فخر کے ایک جذبے کے ساتھ سر اُٹھائے پھرتا۔ اُن کالے کپڑوں نے مجھے ایک عجیب
ذمّے داری کا احساس سونپ دیا تھا۔ اب میں جہاں جاتا یہی دیکھا کرتا تھا۔ میں کہاں
کھڑا ہوں، کیا کر رہا ہوں… کیا میری حرکتیں ملک اور قوم کے شایاں، ہیں یا نہیں؟
بِلّو، اب مجھ سے ڈرنے لگا تھا۔ میری عزت کرنے لگا۔ جسّی دور کھڑی میرا سیاہ و سفید
دیکھتی رہی اور حیران ہوتی رہی۔ ایک شام جو میں گھر لوٹا، تو وہ ہانپتی کانپتی میرے
سامنے آئی اور بولی—
بابو مجھے تم نے کچھ کہنا ہے۔
میں نے کہا، کہو۔
جسّو نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پھر اپنی آنکھیں اوپر اُٹھائیں۔ اُس کی آنکھیں
لال تھیں اور سوجی ہوئی۔ معلوم ہوتا تھا دیر تک روتی رہی ہے۔ کچھ دیر گومگو کے
عالم میں رہنے کے بعد وہ بولی— ’’پھر سہی۔‘‘ اور وہ چل دی—
میں سوچتا رہا ۔ جسّی مجھے کیا کہنے آئی تھی؟ وہ شرم سار کیوں تھی۔ اُس کی
آنکھیں نم ناک کیوں تھیں؟ صبح اُس کی ماں دیوانوں کے کارندے کے ساتھ لڑتی کیوں رہی
تھی؟ بہ ہر حال کچھ ہو گا۔ میں نے سوچا اور اِس واقعے کو بھول گیا۔ اُسی شام جسّی
نے کھانے پر میرے لیے ایک سفید بُرّاق اور بے داغ چادر بچھا دی تھی—
اب میں جلسے جلوسوں میں عام طور پر شرکت کرنے لگا۔ میں ہر ایک سے الگ نظر
آتا تھا۔ نرہری خوش تھا، مگر وہ مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھتا رہتا۔ اب اُس کی
چوپڑی— اُس کا اخبار میرے ہاں مفت آنے لگا تھا۔ ہمیں اُس کے لیے پیسے پو‘ل نہیں
کرنے پڑتے تھے۔ اُن ہی دنوں کلکتہ کانگریس کے موقعے پر پچاس ہزار کام گاروں نے
مظاہرہ کیا تھا اور اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ ہندستان کو ’’آزاد سوشلسٹ ری
پبلک‘‘ قرار دیا جائے۔ گاندھی جی، جنھوں نے پچھلے سال اپنے آپ کو کانگریس سے
علاحدہ کر لیا تھا ، پھر لوٹ آئے اور سیاست کی باگ ڈور سنبھال لی۔ نرہری اِس بات
سے خوش نہ تھا۔ وہ نہرو اور سبھاش کی قیادت کو پسند کرتا تھا۔ لیکن وہ اس بات کو
بھول گیا، جب کہ اس کے تیل کا لاٹ (LOT)
کسی بیوپاری نے اُٹھا لیا۔ وہ بمبئی جا سکتا تھا۔ اُسے
مصیبت میں دیکھ کر اُس بیوپاری نے اپنی ٹوپی اُتار دی۔ اور رومال سے اپنے گھُٹے
ہوئے سر کے ایک ایک مسام سے اُمنڈنے والے پسینے کو پونچھا اور بولا۔ دیکھو میں تمھیں
ایک اور کام بتاتا ہوں۔ اگر بمبئی جا کر کرو تو … میں نے ایک دھات ایجاد کی ہے، جو
سونے کے موافق دکھائی دیتی ہے۔ اُسے پیٹ کر بڑے اچھیّ زیور بنائے جا سکتے ہیں اور
اُنھیں ایک سے لے کر پانچ روپئے تولے [تک؟] کے حساب سے بیچا جا سکتا ہے۔ نرہری نے
کہا۔ نا بابا! میں تمھارے اِس نئے سونے کا قائل نہیں۔ میں تو رولڈ گولڈ کا بھی
قائل نہیں۔ میں محنت کا قائل ہوں۔ کھری چیز کا قائل ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی
بھی چیز دیکھنے میں کچھ اور لگے، اور اندر سے کچھ اور ہو … اور خالص سونے کا وہ دل
دادہ چلا گیا— ہم رات کو آئے تو وہ کہیں نہ تھا۔ صرف ایک چٹ سی پڑی تھی جس پر لکھا
تھا — ’’میری تم سب کو جے مزدور۔ میں بمبئی جا رہا ہوں۔ تمھیں پہلے اِس لیے نہیں
بتایا کہ تم میرا جلوس نکالو گے، تم اپنی جدّوجہد کو جاری رکھنا۔ مگر دیکھنا کھرا
کیا ہے اور کھوٹا کیا۔‘‘ تمھارا نرہری۔
میں نے رُقعہ پڑھا۔ دولت ابھی ابھی آیا تھا اور اپنی بیلوں کو سنبھال کر
طاق پر رکھ رہا تھا۔ اُس موٹے لدّھڑ کا ہاتھ اوپر نہیں پہنچ رہا تھا۔ قد کے لمبا
ہونے کے کارن میں نے وہیں کھڑے کھڑے اُس کی بیلوں کو اوپر سرکا دیا۔ دولت نے قمیص
کے سامنے دو پلّو [سامنے کا پلّو؟] اُٹھا کر اپنے آپ کو پنکھا کیا اور بولا۔ اوف۔
اوف… اب مجھ سے یہ کام نہیں ہو گا بھیّا!
میں نے کہا— کیوں؟
میں جتنا لوگوں کے پیچھے پڑتا ہوں، اُتنا ہی وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ
بولا، اگر تم لوگوں کو یقین دلا دو [کہ؟] تمھیں اُن کی ضرورت نہیں ہے، تب وہ تمھاری
ضرورت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ مگر میں یہ سب کیسے کروں؟ میں کوشش کرتا ہوں لوگوں کو
پتہ نہ چلے، لیکن جانے وہ کیسے جان جاتے ہیں [کہ؟] میں بہت ضرورت مند ہوں۔ آج میری
ایک بھی بیل نہ بک سکی… تم جانتے ہو اِس پہ چونّی میری اپنی لاگت آتی ہے اور بیچتے
سمے میں ڈیڑھ روپئے سے شروع کرتا ہوں اور آخر چونّی تک آ جاتا ہوں۔ لوگ اِسے چونّی
میں بھی نہیں خریدتے۔ تب میری روح کُلبلا اُٹھتی ہے۔ آج ایک آدمی آیا۔ اُس کی گود
میں ایک بچّہ تھا جو اس بیل کی طرف ہمک رہا تھا۔ جب اُس آدمی نے چونّی پر بھی وہ بیل
نہ خریدی تو میں نے کہا۔ تم اِسے مفت لے لو۔ بچّے نے ہاتھ بڑھایا… میں نے کہا، میں
سچ کہتا ہوں۔ میں اِسے مفت دیتا ہوں۔ تم اِسے اِس پیارے بچّے کی خاطر لے لو۔ مگر
اُس آدمی کو یقین نہ آیا۔ اور وہ چلا گیا… اور وہ بچّہ میری بیل کی طرف ہمکتا ہی
رہا۔
میں خاموش ہو گیا۔ میں کیا کہتا۔ دولت خود ہی بولا۔ دیکھو اب تم بڑے آدمی
ہو گئے ہو۔ مجھے اپنا سکریٹری رکھ لو۔ میں تمھارے خطوں کا جواب لکھ دیا کروں گا۔ یہ
ٹھیک ہے، مجھے انگریزی نہیں آتی… پر… میں سیکھ لوں گا… یہ جوہر کوئی بولتا پھرتا
ہے۔ اِس میں مشکل کیا ہے… آئی وی فار یو یس پلیز یور ہمبل سرونٹ…
اتنے میں بلّو نے سر اُٹھایا۔ وہ بھی ہماری باتوں کو سنتا رہا تھا۔ اُس نے
کہا، بھیّا! تم جو روز کانگریس سے ملتے ہو، اُسے ایک بات تو کہہ دو۔ یہ جو ہم سے
نو گھنٹے روز کام لیتے ہیں۔ اُنھیں کسی طرح کم کروا دے…
میں نے دیکھا دونوں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے۔ آپ نے وہ آدمی نہیں
دیکھے جو رو نہ سکیں۔ وہ جینے والے نہیں دیکھے جو مر نہ سکیں۔ میں نے کہا ——آج
نرہری چلا گیا ہے۔ دولت نے کہا۔ کب؟بلّو اپنی نیند بھول گیا۔ میں نے وہ چِٹھّی
سامنے کر دی۔ دولت اُسے جھپٹتے ہوئے دوڑا۔ اور لالٹین کی روشنی میں چلا گیا اور
پھر وہیں کا وہیں بیٹھ گیا۔ وہی دولت اب رو رہا تھا۔ گھکھی بندھ گئی اُس کی۔ بلّو
بھونچکّا بیٹھا رہا۔ وہ ہنسا ۔ ایسی ہنسی جو ہنس ہی دینا چاہیے تھی۔ میں نے دولت
سے کہا—— دولت! پاگل ہو گیا ہے؟ دولت نے کہا… نہیں بھیّا! میں جانتا ہوں۔ وہ کیوں
چلا گیا ہے۔اُسے بھی پتا چل گیا نا، ہمیں اُس کی ضرورت ہے۔
یوں ہم ایک دوسرے کے سہارے جی رہے ہیں، جیسے بھیڑیں کسی نا معلوم خوف سے
گلّے میں اندر کی طرف منھ کیے دبکی کھڑی رہتی ہیں… شہر کے مزدوروں کی یہ حالت تھی۔
گانو کے کسان کا سونا روپئے کا سولہ سیر بک رہا تھا۔
اُس کے بچّے نہیں جانتے تھے ، اُس کی بھینسوں، اُس کی گایوں کی دودھ پر کوئی
روغنی زردی بھی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے دودھ میں پانی ملاملا کر پی رہے تھے۔ حالت بہت
پتلی تھی۔ اُس کی بیوی، اُس کی پی پی، اُس کی ہیر، اُس کے وارث کی ہیر بھوکی تھی
اور ننگی۔ وہ سسرال جاتی تو میکے نہ آسکتی۔ میکے ہوتی تو سسرال نہ پہنچ پاتی۔ ماں
باپ کہتے، جن کی ذمّے داری ہے وہ کیوں نہیں بھُگتتے۔ سسرال والے کہتے، چار دن اور
میکے رہ آئے تو یہاں کچھ آسودگی ہو جائے گی۔ اور وہ آنکھ کا نور، دل کا سرور ، مائیکے
اور سسرال دونوں پر ایک سا بوجھ بنی ہوئی تھی۔ اپنے رانجھے سے الگ ہو کر وہ یہی
گاتی—
یار ڑے دا سانوں ستھر چنگیرا …محبوب کے ہمیں چیتھڑے ہی پسند ہیں… بھٹہ کھیڑیاں
دا رہنا۔ یہاں کھیڑوں کے ہاں رہنا لعنت… اور اُس کا محبوب اپنے کام سے بیزار ہو گیا
تھا، جس سے اُسے روٹی بھی نہ ملتی تھی۔ وہ الگ ہل کی ہتّی پر ایک ہاتھ رکھے، دوسرا
ہاتھ کان پر تھامے گاتا تھا۔
چھالے پئے نے ہتھ تے، پیر پٹھّے
سانوں داہی داکم نہ آوندا ای
راتیں دُکھاں دے نال نہ نیند پیندی
دن روونے نال دیا ہندا ای
ہاتھوں میں چھالے پڑے ہیں، پانو پھٹ گئے ہیں… ہمیں یہ ہلوں کا کام راس نہیں
آتا۔ رات کو دُکھوں کے کارن نیند نہیں آتی، اور دن ہے کہ کراہتے گزر جاتا ہے…
موہن جھولے سے خبر آئی [کہ؟] رتنی کی شادی ہو گئی۔ میں نے کہا… اچھّا ہوا!
گھر تو بس گیا اُس کا۔ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا ،مگر میں خود ہی اِس جملے کا
مطلب سمجھتا تھا۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے [کہ] ناداری کے دنوں میں اپنے زیور سے
گرجانے والے سونے کی جگہ، ہم گلٹ سے بھر لیتے ہیں۔ اُس دن جسّو میرے پاس آئی۔ آج
وہ لہو روتی رہی تھی۔ آج اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا اور تالاب پر رہنے والے لوگ نہیں
جانتے تھے، جب دل ٹوٹتا ہے تو کوئی آواز تھوڑے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اُس دن کی اَن کہی
، جسّو نے آج کہہ ڈالی۔ جانے وہ اِس بارے میں کتنا سوچتی رہتی [رہی؟] ہو گی جو اُس
نے چھوٹتے ہی کہہ دیا۔
بابو —تم مجھ سے شادی کر لو۔
شادی؟— میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا——تم؟ تمھارے ساتھ شادی کر لوں؟ پھر میں
نے سوچا اور کہا۔ کر تو لوں جسّی، پر تم نے مائی سے بات بھی کی ہے۔
ہاں!— جسّی نے اُسی طرح جلدی جلدی کہا —ماں ڈرتی ہے۔
کیوں؟— میں نے پوچھا۔
وہ کہتی ہے، وہ کہتی ہے… تم شادی تو کر لو گے، مگر پھر چھوڑ دو گے… اور
جسّو ایک عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لپٹ گئی ۔ بولی تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے؟
میں نے کہا۔ نہیں… جسّو کے چہرے پر تیقّن کی ایک روشنی آئی۔ میں نے کہا، اس
بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسّو کا چہرہ پھر ماند پڑ گیا۔ پھر ایک کالا سیاہ
ابر اُس کے چہرے کے چاند پر چلا آیا ، لیکن اب کے جو چاند نکلا وہ عالم تاب تھا، کیوں
کہ میںنے جسّو کو اپنے بہت ہی نزدیک کھینچ لیا تھا۔ اتنا نزدیک کہ اُس کے راز میرے
اپنے راز ہو گئے۔
جسّو کے راز کیا تھے؟ پندرہ سولہ برس کی ایک الھّڑ ، اَن پڑھ لڑکی کے راز کیا
ہو سکتے ہیں؟ وہ اُتنے ہی چھوٹے چھوٹے، اُتنے ہی نابالغ ہوتے ہیں، جتنی وہ خود
چھوٹی، خود نا بالغ ہوتی ہے۔ وہ معمولی سی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ بدن
کی معمولی سی تبدیلی سے سہم جاتی ہے اور اُس کی چھوٹی چھوٹی پردہ داریوں کی ہمیں
اُس وقت تک عزّت کرنا پڑتی ہے، جب تک وہ عمر اور تجربے کے ساتھ ہر چیز کو عام نہ
سمجھنے لگے—— بھرپور جوانی کے علاوہ جسّو کا ایک اور راز تھا جس نے اُسے پریشان کر
رکھا تھا۔ لیکن اُسے کیا معلوم جن حالات میں وہ اور مائی بستی کی دوسری بیٹیاں پلتی
ہیں وہ راز بھی راز ہیں[نہیں؟] ایک کھُلی ہوئی بات ہے اور اُنھیں اُس سے شرم سار
ہونے کی بجاے، اُسے چھپانے کی بجائے، اپنے کسی مونس و غم خوار کو کہہ ڈالنا چاہیے…
بات یہ تھی، جسّو حاملہ تھی ۔دیوانوں کے کارندے نے اِس امیر نادار سے اپنا کرایہ
وصول کر لیا تھا اور میں اِسے جانتا تھا۔
جسّو نے مجھے وہ راز نہ بتایا۔ میں نے اپنے جذباتی گھامڑ پنے، ایک ریشمیں
سُبک سری میں اُسے نہ جتایا۔ نتیجہ یہ کہ وہ بے باک لڑکی ، ہمیشہ کے لیے دب گئی۔
اُس کے دبّو پنے کا یہ سلسلہ چار چھے روز بعد ہی شروع ہو گیا، جب کہ شادی کی باتیں
ہونے لگیں۔
جسّو میرے پاس آئی اور کہنے لگی—— شادی پہ بھی تم ——؟… اور اُس نے میرے
کالے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے کہا —ہاں جسّو!
وہ بولی—کم سے کم شادی کے دن تو سفید پہنو۔
میں نے کہا—نہیں، اگر تمھیں منظور ہے تو شادی کر لو، ورنہ کوئی اور گھر
ڈھونڈ لو۔
جسّو کا چہرہ ایک دم سیاہ پڑ گیا۔ یوں معلوم ہوا جیسے میرے کالے لباس کا سایہ
اُس پہ پڑ گیا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں سو‘ت کی ایک انٹی تھی، جو وہ ابھی ابھی کرگھے
سے اُتار کر لائی تھی اور اب اُسے ہاتھ پر لپیٹ رہی تھی۔ وہ گھبرا کے اٹھی اور بولی—نہیں،
یہ بات تو نہیں۔ میں تو کہتی ہوں، جیسا تم چاہو… یہ ماں ہی دشمن ہے میری!
اور اس کے بعد اسی گھبراہٹ میں وہ چل دی۔ اُس کی انٹی وہیں پڑی پڑی کھلتی
رہی اور کچّے سوت کا دھاگہ جسّو کے ساتھ چلتا چلتا، پہلی ہی روک میں اڑ کے ٹوٹ گیا۔
یہی نہیں ۔ میں نے اُن لوگوں سے سادہ سی شادی کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا،
ہم آریا سماج مندر میں جائیں گے اور بیاہ کریں گے۔ کاہے کو فضول رسموں پر پیسا
لٹانا۔ بس تمھاری ماں ہوں گی۔ میرے کچھ دوست ہوں گے۔ گانو سے کسی کو نہیں بلائیں
گے… اور میں اِس بات کو سمجھ نہ سکا، شادی زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے جس کے
بارے میں جسّی کی طرح کی لڑکیاں اور اُن کی مائیں برسوں سوچا کرتی ہیں اور ان کے
تخیّل میں رنگ، میلے میں اُڑانے والے غبّاروں کی طرح، مچلا کرتا ہے۔ بیاہ شادی کے
موقع پر گائے جانے والے گیت ، اُس وقت کا ہنگامہ، وہاں کا سوانگ، اُن کے صدیوں سے
اسائے ہوئے کانوں اور آنکھوں کو برمایا کرتے ہیں… آخر شادی اور ماتم میں فرق ہوتا
ہے۔ شادی کا ایک اپنا انداز ہے اور ماتم کا اپنا۔ دونوں کا اظہار جداگانہ۔ بہت پڑھ
جانے والے بھی شادی اور ماتم کو ایک ہی بات نہ سمجھ سکے۔
اِس کوّے اور مینا کی شادی ہوئی۔ میں نے بیار اپنے گانو خط لکھ دیا۔ اچمبھا
اِس بات کا تھا کہ سوائے میری بھابی کے اور کسی کو غصّہ نہ آیا۔ میرے باپ نے مجھے
اور اپنی کُل ودھو کو آشیرواد دی۔ جوانی میں وہ ہم سب پر برسا کرتے تھے، لیکن اُن
کے بڑھاپے کا جب مجھے احساس ہوا… اُنھوں نے کچھ نہ کہا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ
میں ہر مہینے اُنھیں تھوڑا بہت بھیج دیا کرتا تھا اور اُس پہ ہی اُن کی گزران ہوتی
تھی۔ پتہ نہیں کیا کیا خیال اُن کے دماغ میں آآ کر رہ گئے ہوں گے۔ بہ ہر حال اُن حالات کی آخری شکل وہ آشیرباد
تھی، جس کے اختیار میں اُن کا پیچ و تاب اور آخر اُن کی کرب ناک مصالحت نظر آ رہی
تھی۔ شادی ہو جانے کی خبر سُن کر کتنی بار اُن کا صافہ کھلا ہو گا۔ اور کتنی بار
اُنھوں نے اُسی ناشائستہ، نا زیبا اور بھدّے طریقے سے اُسے لپیٹ لیا ہو گا— یہ سب
میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ بھیّا نے اتنا لکھا… یہ تو تم نے کر لیا۔ اب بیوی کو لے
کے آؤ۔ عورتیں پوچھتی ہیں، رتنی پوچھتی ہے۔ کتھوڑا صاحب (انگریزی پلانٹر جو وہاں
آباد ہو گیا تھا) کے باغ میں اب کے بہت بڑے سیب لگے ہیں اور شہ دانے ۔ تمھارا بھتیجا
اب چاچی کہہ لیتا ہے… بھابی نے لکھوایا—سمجھو میں تمھارے لیے مر گئی۔ میں نے خط
غور سے دیکھا تو لکھا تھا۔ آج سے تم میرے لیے مر گئے اور پھر اس جملے کو کاٹ دیا گیا
تھا۔ جانے کس احتیاج نے اُس سے یہ اصلاح کروا دی تھی۔ تمھارے لیے میں مر گئی اب بیار
مت آنا۔ اور اِسی نہ آنے کے حکم میں آنے کی کتنی دعوتیں تھیں۔ کاش میرے بھولے
بھالے بھائی کو بُلاوے کا یہ انداز آتا۔ جی چاہتا تھا اُڑ کر بھابی کے پاس چلا
جاؤں اور اُس کی گود میں سر رکھ کر روؤں اور بس اتنا سا کہوں——تو دیکھتی ہے بھابی؟…
کیا کیا حسرتیں تھیں جو میری وجہ سے بھابی کے دل میں رہ گئیں۔ وہ اِس شادی میں ماں
بن کر ’’ہتھ بھرا‘‘ کرنا چاہتی تھی۔ اُس کے تصوّر میں مول اور بانکوں والے بازو
اُٹھے کے اُٹھے رہ گئے۔ کیا کیا گیت تھے جو اُس کے نورانی گلے کی کوئل کوک نہ سکی۔
میرے دیور کی ہو گئی سگائی ہو… اور پھر تو یہ شادی تھی۔
ایک دن جسّی نے بھنّا کر کہا، ہر وقت یہ بھابی… بھابی… بھابی… کیا بڑی ہی
خوب صورت ہے تمھاری بھابی؟
میں نے کہا—ہاں!
جسّی تنک کر بولی، مجھ سے اچھّی ہے۔
میں نے کہا، نہیں جسّی! تم اور تمھاری یہ خفتی ماں ایک جگہ ہوں اور باتیں
کم کریں تو میری بھابی بن جاتی ہے… اِس پر خوب قہقہہ پڑا۔
اچھے گزر گئے ہماری شادی کے دن۔ جیسے جیسے میری جیب اجازت دیتی، میں جسّی
کے لیے چیزیں خرید کے لاتا۔ خود اُس نے کبھی کسی چیز کی فرمائش نہ کی۔ اُن دنوں سیال
کوٹ کے رستے جمّوں سے موتیا آتا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم نے سیروں موتیے کے پھول اپنے
بچھونوں پر مسل ڈالے۔ اُن پھولوں کی تیز مہک سے گھبرا کر ماں اوپر کی چھت پہ چلی
جایا کرتی تھی۔ اور بلّو اور دوست دور ہی سے ہمیں گالیاں دیا کرتے۔
فرصت پاکر میں کئی بار جسّی کو باہر بھی لے گیا۔ باہر کہاں؟ — چڑیا گھر!
ہمارے طبقے کے آدمی جب بیوی پر بہت خوش ہوتے ہیں تو سیر کرانے کے لیے اُسے
چڑیا گھر لے جاتے ہیں۔ واپسی پر پیدل آنے کی وجہ سے ہماری بُری حالت ہوتی تھی۔ لیکن
راستے میں چُہل سے وقت کٹ جاتا تھا۔ اسی زمانے میں میں نے چرخا سَنگھ میں نوکری کر
لی۔ میرے ساتھ میرا ایک مسلمان دوست ہوتا تھا ۔ جو اَب ریاست کشمیر میں وزیر بن گیا
ہے۔ میں اور وہ ، گھر گھر اور دُکان دُکان گھوم کر کھادی بیچا کرتے تھے۔ میرا وہ
مسلمان دوست ہانک خوب لگاتا تھا… جو تھوڑا وقت بچتا ، وہ جلسوں اور جلوسوں میں لگ
جاتا۔ جسّی کے زچگی کے دن آنے لگے۔ اب وہ گھر ہی میں پڑی رہتی۔ شام کو میں لوٹ کے
آتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے اُس کے پھپھوندی لگ گئی ہے۔ ہاتھ لگاؤ تو ساتھ چلی آتی
ہے۔
جسّی مجھ سے گھبرانے لگی تھی۔ میں اُس کی گھبراہٹ کی وجہ سمجھتا تھا۔ لیکن
ہر طریقے سے اُسے تسلّی دینے کا جتن کیاکرتا۔ سب سے زیادہ جس بات سے مجھے وحشت ہوتی
تھی، وہ یہ تھی کہ جسّی نے ہاں کے سوا کچھ سیکھا ہی نہیں تھا۔
جسّی! روٹی کھاؤ گی؟
ہاں جی!
جسّی! باہر چلو گی—گھومنے ؟
کچھ رُک کر— ہاں جی!
جسّی باہر تو نہیں جاؤ گی، آج؟
ہاں جی! آج نہیں جاؤں گی۔ میرا جی اچھا نہیں۔
یعنی باقی فقرے وہ صرف میرے شہ پر کہہ دیتی ،لیکن اگر اس سوال کو دوسرے طریقے
پر کرتا تو وہ فوراً ہاں جی کہہ دیتی۔ یہی نہیں —اُٹھ کے ساتھ بھی چل دیتی۔ آٹھ مہینے
کا پیٹ! جب وہ چلتی تو یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی چھدامی بھاری بھرکم بہنگی اُٹھائے
جا رہا ہے اور بہنگی کی لکڑی سے عجیب طرح چرّخ چوں چرّخ چوں کی آواز نکل رہی
ہے…پہلو ٹن کی عام طور پر یہ حالت نہیں ہوتی، لیکن پڑے رہنے اور میرے نئے نئے شوق
کی خاطر اور اچھّی اچھّی چیزیں کھانے کے کارن جسّی کا پیٹ بہت بڑھ گیا تھا۔ ایک دن
اِسی طرح وہ میرے کہنے پر باہر چلی گئی۔ میں نے اُس کی حالت دیکھی تو کہا —میرا خیال
ہے اب لوٹ چلیں۔ جسّی بولی، ہاں جی! میرا بھی یہی جی چاہ رہا ہے۔ میں نے برافروختہ
ہو کر کہا۔ تو حرام زادی بکتی کیوں نہیں۔ جو بات کرو۔ ہاں جی، ہاں جی، ہاںجی… اِس
کے سوا کوئی بات ہی نہیں۔ ایسا ہی کرتی رہی تو میری اور تمھاری نہیں پٹے گی، سمجھیں؟…
میں چھوڑ دوں گا تمھیں——
اور زندگی میں پہلی بار جسّی نے کہا — ناں جی!
اور 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیان رات کو جب راوی کے کنارے پنڈت نہرو
نے مکمل آزادی کا جھنڈا گاڑا۔ ہمارے یہاں ایک حرامی بچّہ پیدا ہوا۔ اُس بچّے کا
مکمل آزادی کے اعلان کے ساتھ کیا تعلق تھا؟— یہ میں اب نہیں کہہ سکتا، اسے اتفاق کی
بات سمجھیے۔ بہ ہر حال وہ ایک ایسا بچّہ تھا جس کے پیدا ہونے پر میں خوش تھا۔ بلّو
اور دولت خوش تھے۔ میرا وہ مسلمان دوست ، میرے دوسرے ساتھی، میرے راہبر خوش تھے، لیکن
اگر خوشی نہ تھی تو اُس بچّے کی اپنی ماں۔ جو جانتی تھی… جو پشیمان تھی۔ آنکھوں میں
ندامت کے آنسو لیے اُس نے اُس بچّے کو میری گود میں ڈال دیا… ایک طرف میں اور میرے
دوست تھے ،دوسری طرف جسّی تھی اور اُس کی ماں۔ ایک طرف گاندھی، نہرو اور دوسرے لیڈر
لوگ تھے! دوسری طرف بھارت ماتا!
No comments:
Post a Comment