تمہاری
بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ
اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر
یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
فغاں
ہے درد ہے سوز و فراق و داغ و الم
ابھی
تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں
اب
اور گردشِ تقدیر کیا ستائے گی
لٹا
کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں
وہ
ایک لفظ محبت ہی دل کا دشمن ہے
جسے
شریعتِ احساس مان بیٹھے ہیں
ہے
میکدے کی بہاروں سے دوستی ساغر
درائے
حدِ یقین و گمان بیٹھے ہیں
No comments:
Post a Comment