آ۔ کی کہاوتیں
( ۶۷) آنا نہ پائی،نری پاؤں گِھسائی :
پہلے زمانے میں ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے، ایک آنے میں چار پیسے اور ایک پیسے میں تین پائی۔اس طرح پائی ایک نہایت کم قیمت سکہ ہوا۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ یہ ایسا کام ہے جس میں دوڑ دھوپ بہت ہے لیکن بالکل بے کار و بیسودکیونکہ اس میں کچھ ملنا ملانا نہیں ہے۔
( ۶۸ ) آندھی کے آم :
آندھی میں درخت سے پکے ہوئے جو آم گر جائیں وہ ہر آنے جانے والے کے لئے مفت کی ضیافت ہیں۔ چنانچہ مفت کی چیز کو آندھی کے آم کہا جاتا ہے۔
(۶۹) آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ :
اگر کوئی نظروں سے کچھ دنوں کے لئے غائب ہو جائے تو لوگ اس کو بہت جلد ایسے بھول جاتے ہیں جیسے وہ کسی پہاڑ کے پیچھے جا کر چھپ گیا ہو۔اسے’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۷۰ ) آنکھیں ہو گئیں اوٹ، دل میں آئی کھوٹ :
کوئی شخص تھوڑی سی دیر کے لئے بھی نظروں سے غائب ہو جائے تو اس کے مال کی جانب لوگ بری نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کسی طرح اس پر قبضہ کر لیا جائے۔
( ۷۱) آنکھ کے آگے ناک، سوجھے کیا خاک :
یعنی آنکھوں پرتو پردہ پڑا ہوا ہے،پھر نظر کیسے آسکتا ہے؟ ایک لطیفہ اس کہاوت سے منسوب ہے۔ ایک نکٹے نے لوگوں کے طعنوں سے عاجز ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ اس کو اللہ نظر آتا ہے۔لوگوں نے جب پوچھا کہ ’’ہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟‘‘ تو اس نے جواباً کہا کہ ’’تمھاری آنکھوں کے آگے ناک کی آڑ لگی ہوئی ہے جو اللہ کو دیکھنے کی راہ میں حائل ہے۔‘‘ کچھ بے وقوف لوگوں نے اس کی باتوں میں آ کر اپنی ناک کٹوا لی لیکن اللہ پھر بھی نظر نہیں آیا۔ نکٹے نے ان سے کہا کہ ’’بہتر یہ ہے کہ تم بھی میری ہاں میں ہاں ملاؤ ورنہ دُنیا تمھاری حماقت پرہنسے گی۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور چند اور لوگوں نے ناکیں کٹوا لیں۔
No comments:
Post a Comment