خطرے
میں ہے اے یار چمن مہرو وفا کا
توہین
ہے درویش کا اس شہر میں جینا
ہو
فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا
اب
تک کا تفکر غم تقدیر کا چارہ
سینے
میں پتا رکھتے ہیں جو ارض و سما کا
جی
چاہتا ہے اے میرے افکار کی مورت
ملبوس
بنا دوں تجھے تاروں کی ردا کا
محفوظ
رہیں میرے گلستاں کی فضا میں
ہو
قتل گل و لالہ تقاضا ہے صبا کا
جلتے
ہوئے دیکھے وہی معصوم شگوفے
تھا
جن کو بھروسہ تیرے دامن کی ہوا کا
کچھ
سرد ہی آہیں تو ڈوبتے آنسو!
ساغر
یہ صلا تجھ کو ملا سوز نوا کا!
No comments:
Post a Comment