الف۔کی کہاوتیں
(۱۱۴) اوکھلی میں سر دیا تو موسل کا کیا ڈر :
پہلے زمانہ میں ہر گھر میں موسل اور اوکھلی مسالہ، تل وغیرہ کوٹنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اپنا سراوکھلی میں ڈال دے (یعنی کوئی مصیبت اپنے سر خود ہی بلائے )تو پھر اُس کو موسل (یعنی اپنی غلطی کے فطری انجام )کا ڈر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ تو پیش آ کر ہی رہے گا۔
(۱۱۵) اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ :
اگر کوئی شخص اونگھ رہا ہو اور اس کو ٹھیل دیا جائے یعنی ہلکا سا دھکا دے دیا جائے تو لیٹ کر سونے میں اُسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ گویا ٹھیلنا اس کے لئے سونے کا بہانہ بن جاتا ہے اور وہ دھکا دینے والے کو اپنی سستی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے جو کسی کام میں طرح طرح سے آنا کانی کر رہا ہو اور اُس کو ٹالنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہو۔
(۱۱۶) اوچھے کو پدوی ملے، ٹیڑھو ٹیڑھو جائے :
یہ سنت کبیرؔ کے ایک ہندی دوہے کا مصرع ہے۔ اوچھے یعنی کم ظرف۔ ہندی میں پدوی، خطاب، عہدہ یا گدّی کو کہتے ہیں۔ٹیڑھو یعنی ٹیڑھا۔ کہاوت کا یہ مطلب ہوا کہ اگر کسی کم ظرف آدمی کو کوئی عہدہ یا اعلیٰ مقام مل جائے تو اس کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی اور وہ اپنی نئی عزت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتا۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۱۱۷) اونٹ کی داڑھ میں زیرہ :
زیرہ کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اگر وہ اونٹ کے منھ میں ہو تو اونٹ کو اس کا احساس بھی نہیں ہو گا۔ لہٰذا کسی کے سامنے کوئی کھانے کی چیز نہایت قلیل مقدار میں رکھی جائے تو کہیں گے کہ’’ یہ تو ایسا ہے جیسے اونٹ کی داڑھ میں زیرہ۔‘‘
(۱۱۸) اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی؟ :
اونٹ بہت ٹیڑھا میڑھا اور بھونڈا جانور ہے۔ لفظ کل یوں تو مشین یااس کے پرزہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں اس سے مراد اُونٹ کے جسم کا عضو ہے۔ اگر کسی شخص کی ہر بات ہی بے سر پیر کی ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے یعنی کبھی تو کوئی تُک کی بات کر لیا کرو۔
No comments:
Post a Comment