بادہ
خانوں کی خبر رکھتے ہیں
خارزاروں
سے تعلق ہے ہمیں
گُلستانوں
کی خبر رکھتے ہیں
اُن
کی گلیوں میں بسر ہوتی ھے
اور
مکانوں کی خبر رکھتے ہیں
ہم
اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم
زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
اُن
کی گلیوں کے مکینوں کی سُنو
لا
مکانوں کی خبر رکھتے ہیں
چند
آوارہ بگولے اے دوست
کاروانوں
کی خبر رکھتے ہیں
زخم
کھانے کا سلیقہ ہو جنہیں
وہ
نشانوں کی خبر رکھتے ہیں
کُچھ
زمینوں کے ستار ے ساغر
آسمانوں
کی خبر رکھتے ہیں
ساغر
صدیقی
No comments:
Post a Comment