ت۔کی
کہاوتیں
( ۲۵ ) تیلی خصم کیا پھر بھی روکھا کھایا :
خصم یعنی شوہر۔ تیلی شوہر سے امید ہوتی ہے کہ
کھانا تیل میں تَر ملا کرے گا لیکن اگر اس
کے ہوتے ہوئے بھی روکھاسوکھاہی ملے تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ یعنی غلط کام
بھی کیا اور مطلب پھر بھی پورا نہ ہوا۔یہی کہاوت کا مطلب ہے۔
(
۲۶ ) تیتر تو اپنی آئی مرا، تو کیوں مرا بٹیر
:
اپنی آئی مرا یعنی فطری موت کا شکار ہوا۔ گویا
کہ تیتر تو اپنی فطری موت مر گیا لیکن اے بٹیر یہ بتا کہ تجھ کو کیا ہوا تھا جو تو
بھی جان سے جاتا رہا؟ یہ کہاوت تب کہی جاتی
ہے جب لوگ دوسروں کے مسائل میں خواہ مخواہ الجھ کر اپنے سر مصیبت مول لیتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں۔
(
۲۷ ) تیسرے دن مردار حلال :
فاقے کی حالت میں انسان کے لئے حرام شے بھی حلال ہو جاتی ہے۔ تین
دن فاقوں کی شرط کسی طبی یا سائنٹفک بنیاد پر نہیں قائم ہے۔ چونکہ فاقہ کی مدت کا تعین منظور تھا
اس لئے تین دن کی مدت فرض کر لی گئی۔ہو سکتا ہے کہ کوئی کمزور اور بیمار آدمی تین
دن کا فاقہ بھی برداشت نہ کر سکے۔ اس صورت میں
تین دن سے مراد اتنی مدت ہو گی جتنی میں
اُس کی جان جانے کا خطرہ ہو۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب حالات انسان کو
ہر طرح کا کام کرنے پر مجبور کر دیں۔
(
۲۸ ) تین ٹانگ کا گھوڑا ہے
:
تین
ٹانگ کا گھوڑا یعنی ناکارہ۔ یہ کہاوت ناکارہ اور بے فیض آدمی کے لئے کہی جاتی ہے۔
(۲۹ ) تیلی کا تیل جلے، مشعلچی کا دل :
یعنی خرچ تو تیلی کا ہو رہا ہے اور دل جل رہا ہے
مشعلچی کا جس کا کام صرف مشعل کو اٹھائے پھرنا ہے۔ زحمت اور خرچ کسی کا ہو رہا ہو
لیکن اس کی تکلیف اور شکایت کسی لا تعلق
شخص کو ہو تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment