آ۔ کی کہاوتیں
(۱ ) آبنوس کا کندہ :
کُندہ یعنی بھاری ٹکڑا۔آبنوس ایک سخت اور سیاہ قسم کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے سیاہ فام( بالکل کالے) آدمی کو آبنوس کا کُندہ کہتے ہیں۔
( ۲ ) آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی :
اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اُس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہئے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے جس سے لوگ نا واقف ہوں۔
(۳) آ بنی سر آپنے، چھوڑ پرائی آس :
آ بنی سر آپنے یعنی مصیبت اپنے سر پر آ ہی پڑی ہے۔ ایسے میں کسی اور سے اُمید لگانی بیکار ہے۔ جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور بھگتنا ہے۔
(۴) آ بیل مجھے مار :
کسی مصیبت کو جان بوجھ کر اپنے سر پر بلانا ایسا ہی ہے جیسے راہ چلتے بیل کو چھیڑ کر حملہ کی دعوت دی جائے۔ اس حوالے سے یہ کہاوت حماقت یا کم عقلی کا استعارہ ہے۔
(۵) آب آید، تیمم برخواست :
پانی اگر مل جائے تو پھر تیمم کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ اجازت۔گویا اگر کسی رعایت کی وجہ ہی باقی نہ رہے تو پھر وہ رعایت بھی اٹھ جاتی ہے، یا زیادہ اہم چیز مل جائے تو کم اہم چیز کی مانگ اور ضرورت نہیں رہ جاتی۔
No comments:
Post a Comment