الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۲۷) اینٹ سے اینٹ بجا دی :
بالکل تباہ و برباد کر دیا، تہس نہس کر دیا۔
(۱۲۸) ایرا غیرا، نتھو خیرا :
یعنی بلا تمیز و امتیاز ہر شخص۔ اَیرا غیرا یعنی غیر شخص۔ ایرا غیرا میں تحقیر کا پہلو ہے۔ نتھو اور خیرا مخفف ہیں بالترتیب ہندو اور مسلم ناموں کے۔ ان سے مراد ہے ہر شخص۔
(۱۲۹) ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ :
گدھے کے سینگ نہیں ہوتے۔ اگر کوئی شخص اچھا خاصہ بیٹھے بٹھائے غائب ہو جائے یا وقتِ ضرورت نظر ہی نہ آئے تو کہتے ہیں کہ وہ توایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
(۱۳۰) ایران توران ایک کر دیا :
یعنی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی،بُری محنت کی۔
(۱۳۱) ایک منہ ہزار باتیں :
جہاں جائیں ایک ہی بات کا چرچا ہو رہا ہے۔
(۱۳۲) ایک دَر بند،ہزار دَر کھلے :
یعنی روزی کا ایک ذریعہ بند ہوتا ہے تو اَللہ اس کے بجائے ہزار دروازے اور کھول دیتا ہے۔ گویا روزی کسی نہ کسی طرح ملتی ہی رہتی ہے۔
(۱۳۳) ایک رنگ آتا ہے، ایک جاتا ہے :
اضطرابی کیفیت ہے اور پریشانی کے عالم میں چہرہ رنگ بدل رہا ہے۔ اس کو ’’چہرہ پر ہوائیاں اُڑنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۱۳۴) ایک کرے، دَس بھریں :
یعنی جرم یا غلطی تو ایک شخص کرے اور اس کا خمیازہ بہت سے لوگوں کو اٹھانا پڑے۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
(۱۳۵) ایں خانہ ہمہ آفتاب است :
یہ گھر تو سارا کا ساراآفتاب کی طرح روشن ہے یعنی سب ایک ہی جیسے ہیں۔یہ کہاوت اچھائی اور برائی دونوں کے لئے بولی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment