ت ۔ کی کہاوتیں
(۱ ) تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود :
پہلے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ سانپ کا زہر ایک دَوا تریاق سے زائل کیا جا سکتا ہے۔ کہاوت کا ترجمہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا،سانپ کا کاٹا ہوا آدمی مر چکا ہو گا۔ لفظ عراق، تریاق کا ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے لایا گیا ہے اور دُور دَراز کے مقام کی علامت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کا خیال ہو کہ عراق کا تریاق سب سے اچھا اور زود اثر ہوتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی مسئلہ کے حل کے لئے دُور از کار باتیں اور کارروائی کرو گے وہ مسئلہ ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا۔ کسی کام میں فضول دیر لگائی جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۲ ) تدبیر کند بندہ، تقدیر زَند خندہ :
انسان تدبیر کیا کرتا ہے اور تقدیر اُس پر ہنستی رہتی ہے۔ گویا کام کا دارو مدار محض انسان کی تدبیر اور کوشش پر نہیں ہے بلکہ قسمت بھی کوئی قوت ہے جو تدبیر کو ناکام بنا کر اپنے فیصلے الگ ہی دیا کرتی ہے۔
(۳ ) تری آواز مکے اور مدینے :
بارکباد، شکریے اور دعا کے طور پر بولتے ہیں۔یہ ایک شعر کادوسرا مصرع ہے ؎
مؤذن مرحبا بروقت بولا تری آواز مکے اور مدینے
( ۴) تگنی کا ناچ نچا دیا :
بری طرح پریشان کیا، عاجز کر دیا۔
(۵) تل اوٹ، پہاڑ اوٹ :
یعنی نگاہوں سے اوجھل ہو جانے والی چیز چاہے تل ایسی چھوٹی چیز کے نیچے ہی دب جائے بہت جلد ذہن و دماغ سے ایسے اُتر جاتی ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے پیچھے غائب ہو گئی ہو۔’’ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ‘‘ بھی اسی معنی میں کہتے ہیں۔
( ۶) تل دھرنے کی جگہ نہیں :
یعنی جم غفیر ہے، آدمی پر آدمی چڑھا ہوا ہے۔
No comments:
Post a Comment