الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۰۲) اندھوں نے ہاتھی کو چھوا، سب نے الگ الگ دیکھا :
قصہ مشہور ہے کہ چار اندھوں نے پوچھا کہ’’ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔‘‘ ان کو ایک ہاتھی کے پاس کھڑا کر دیا گیا۔ ایک نے سونڈ چھوئی اور کہا کہ’’ ہاتھی تو ایک موٹے سانپ کی طرح ہوتا ہے‘‘۔ دوسرے نے اس کے دانت چھوکر اس کو سخت اور خطرناک بھالے کی طرح بتایا۔ تیسرے نے ہاتھی کے پیروں پر ہاتھ پھیرے اور اس کو ستون کی شکل کا سمجھا جب کہ چوتھے نے اُس کا بدن چھوا اور کہا کہ ’’ہاتھی تو ایک دیوار کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ ہاتھی پوری طرح کسی کی بھی سمجھ میں نہ آیا۔ یہی حال ایسے لوگوں کاہے جو مسئلہ کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے بلکہ اس کے کسی حصے کو ہی پورا مسئلہ سمجھ کر اس پر خیال آرائی کیا کرتے ہیں۔
(۱۰۳) انسان اَن کا کیڑا ہے :
اَن یعنی اناج۔ا َناج کے کیڑے کی طرح انسان بھی بغیر اناج کے زندہ نہیں رہ سکتا۔
(۱۰۴) اندھے کے آگے روئے، اپنے بھی نین کھوئے :
اندھے کے آگے دُکھڑا رونے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کسی کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس میں اپنی ہی آنکھوں کا نقصان ہے۔گویا جو شخص آپ کے مسائل سے بیگانہ ہو اس سے شکایت کرنا بیکار ہے۔
(۱۰۵) اندر کی سانس اندر، باہر کی سانس باہر :
شدید خوف وہراس یا حیرت میں انسان ہکا بکا کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے گویا سانس تک لینا بھول جاتا ہے۔ ایسے وقت یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۰۶) اندھا گائے، بہرا بجائے :
اگر اندھے گانے والے کی سنگت کوئی بہرا کر رہا ہو تو اندھا یہ نہ سمجھ سکے گا کہ ساز کس رُخ پر جا رہا ہے اور بہرے کو صحیح سنگت کے لئے گانا نہیں سنائی دے گا۔ لہٰذا دونوں کا گانا بجانا بے سود ہو گا۔ اگر دو آدمی مل کر ایسا کام کرنا چاہیں جس میں وہ ایک دوسرے کی صلاحیت سے نا واقف ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۰۷) اندھے کو دن رات برابر ہے :
اندھے آدمی کو دن اور رات کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح کم عقل آدمی کے لئے بھی اچھی بری بات ایک سی ہوتی ہے۔
(۱۰۸) انگلی پکڑ کر پُہنچا پکڑ لیا :
پہنچا یعنی کلائی۔ مطلب یہ ہے کہ ذرا سی رعایت کا ملنا تھا کہ زیادہ کی جانب لپک پڑے۔
No comments:
Post a Comment